كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ} صحيح حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا حَيْوَةُ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ بُكَيْرٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَجُلًا جَاءَهُ فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَلَا تَسْمَعُ مَا ذَكَرَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا إِلَى آخِرِ الْآيَةِ فَمَا يَمْنَعُكَ أَنْ لَا تُقَاتِلَ كَمَا ذَكَرَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي أَغْتَرُّ بِهَذِهِ الْآيَةِ وَلَا أُقَاتِلُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَغْتَرَّ بِهَذِهِ الْآيَةِ الَّتِي يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا إِلَى آخِرِهَا قَالَ فَإِنَّ اللَّهَ يَقُولُ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ قَالَ ابْنُ عُمَرَ قَدْ فَعَلْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ كَانَ الْإِسْلَامُ قَلِيلًا فَكَانَ الرَّجُلُ يُفْتَنُ فِي دِينِهِ إِمَّا يَقْتُلُونَهُ وَإِمَّا يُوثِقُونَهُ حَتَّى كَثُرَ الْإِسْلَامُ فَلَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ فَلَمَّا رَأَى أَنَّهُ لَا يُوَافِقُهُ فِيمَا يُرِيدُ قَالَ فَمَا قَوْلُكَ فِي عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ مَا قَوْلِي فِي عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ أَمَّا عُثْمَانُ فَكَانَ اللَّهُ قَدْ عَفَا عَنْهُ فَكَرِهْتُمْ أَنْ يَعْفُوَ عَنْهُ وَأَمَّا عَلِيٌّ فَابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَتَنُهُ وَأَشَارَ بِيَدِهِ وَهَذِهِ ابْنَتُهُ أَوْ بِنْتُهُ حَيْثُ تَرَوْنَ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (( وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ )) الخ کی تفسیر
ہم سے حسن بن عبد العزیز نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدا للہ بن یحییٰ نے ، کہا ہم سے حیوہ بن شریح نے ، انہوں نے بکر بن عمرو سے ، انہوں نے بکیر سے ، انہوں نے نافع سے ، انہوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ ایک شخص ( حبان یا علاءبن عرار نامی ) نے پوچھا ابوعبدالرحمن ! آپ نے قرآن کی یہ آیت نہیں سنی کہ جب مسلمانوں کی دو جماعتیں لڑنے لگیں الخ ، اس آیت کے بموجب تم ( حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں سے ) کیوں نہیں لڑتے جیسے اللہ نے فرمایا (( فقاتلوا التی تبغی )) انہوں نے کہا میرے بھتیجے اگر میں اس آیت کی تاویل کر کے مسلمانوں سے نہ لڑوں تو یہ مجھ کو اچھا معلوم ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ میں اس آیت (( ومن یقتل مومنا متعمدا )) کی تاویل کروں ، وہ شخص کہنے لگا اچھا اس آیت کو کیا کروگے جس میں مذکور ہے کہ ان سے لڑو تاکہ فتنہ باقی نہ رہے اور سارا دین اللہ کا ہو جائے ۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا ( واہ واہ ) یہ لڑائی تو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کر چکے ، اس وقت مسلمان بہت تھوڑے تھے اور مسلمان کو اسلام اختیار کرنے پر تکلیف دی جاتی ۔ قتل کرتے ، قید کرتے یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا ۔ مسلمان بہت ہو گئے اب فتنہ جو اس آیت میں مذکور ہے وہ کہاں رہا ، جب اس شخص نے دیکھا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کسی طرح لڑائی پر اس کے موافق نہیں ہوتے تو کہنے لگا اچھا بتلاؤ علی رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں تمہارا کیا اعتقاد ہے ؟ انھوں نے کہا ہاں یہ کہو تو سنو ، علی اور عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں اپنا اعتقاد بیان کرتا ہوں ۔ عثمان رضی اللہ عنہ کا جو قصور تم بیان کرتے ہو ( کہ وہ جنگ احد میں بھاگ نکلے ) تو اللہ نے ان کا یہ قصور معاف کردیا مگر تم کو یہ معافی پسند نہیں ( جب تو اب تک ان پر قصور لگاتے جاتے ہو ) اورعلی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ تو ( سبحان اللہ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زادبھائی اور آپ داماد بھی تھے اور ہاتھ سے اشارہ کر کے بتلایا یہ ان کا گھر ہے جہاں تم دیکھ رہے ہو ۔
تشریح :
یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تقرب اور علو مرتبہ تو ان کے گھر کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے ان کا گھر ملا ہوا ہے اور قرابت قریب یہ کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ کے داماد بھی تھے۔ ایسے صاحب فضیلت کی نسبت بد اعتقادی کرنا کم بختی کی نشانی ہے۔ شاید یہ شخص خوارج میں سے ہوگا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ دونوں کی تکفیر کرتے ہیں۔ ( وحیدی ) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا مطلب یہ تھا کہ موجودہ جنگ خانگی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کافروں سے ہماری جنگ دنیا کی حکومت یا سرداری کے لیے نہیں بلکہ خالص دین کے لیے تھی تاکہ کافروں کا غرور ٹوٹ جائے اور مسلمان ان کی ایذاءسے محفوظ رہیں تم تو دنیا کی سلطنت اور حکومت اور خلافت حاصل کرنے کے لیے لڑ رہے ہو اور دلیل اس آیت سے لیتے ہو جس کا مطلب دوسرا ہے۔ قرآن مجید کی آیات کو بے محل استعمال کرنے والوں نے اسی طرح امت میں فتنے اورفساد پیدا کئے اور ملت کے شیرازے کو منتشر کردیا ہے۔ آج کل بھی بہت سے نام نہاد عالم بے محل آیات واحادیث کواستعمال کرنے والے بکثرت موجود ہیں جو ہر وقت مسلمانوں کو لڑاتے رہتے ہیں۔ ھداھم اللہ الیٰ صراط مستقیم۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس طرز عمل میں بہت سے اسباق پوشیدہ ہیں ، کاش ! ہم غور کر سکیں۔
یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تقرب اور علو مرتبہ تو ان کے گھر کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے ان کا گھر ملا ہوا ہے اور قرابت قریب یہ کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ کے داماد بھی تھے۔ ایسے صاحب فضیلت کی نسبت بد اعتقادی کرنا کم بختی کی نشانی ہے۔ شاید یہ شخص خوارج میں سے ہوگا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ دونوں کی تکفیر کرتے ہیں۔ ( وحیدی ) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا مطلب یہ تھا کہ موجودہ جنگ خانگی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کافروں سے ہماری جنگ دنیا کی حکومت یا سرداری کے لیے نہیں بلکہ خالص دین کے لیے تھی تاکہ کافروں کا غرور ٹوٹ جائے اور مسلمان ان کی ایذاءسے محفوظ رہیں تم تو دنیا کی سلطنت اور حکومت اور خلافت حاصل کرنے کے لیے لڑ رہے ہو اور دلیل اس آیت سے لیتے ہو جس کا مطلب دوسرا ہے۔ قرآن مجید کی آیات کو بے محل استعمال کرنے والوں نے اسی طرح امت میں فتنے اورفساد پیدا کئے اور ملت کے شیرازے کو منتشر کردیا ہے۔ آج کل بھی بہت سے نام نہاد عالم بے محل آیات واحادیث کواستعمال کرنے والے بکثرت موجود ہیں جو ہر وقت مسلمانوں کو لڑاتے رہتے ہیں۔ ھداھم اللہ الیٰ صراط مستقیم۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس طرز عمل میں بہت سے اسباق پوشیدہ ہیں ، کاش ! ہم غور کر سکیں۔