كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا، اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ، وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ المَرْءِ وَقَلْبِهِ، وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ} صحيح حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ أُصَلِّي فَمَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَانِي فَلَمْ آتِهِ حَتَّى صَلَّيْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَ أَلَمْ يَقُلْ اللَّهُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ ثُمَّ قَالَ لَأُعَلِّمَنَّكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ فَذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَخْرُجَ فَذَكَرْتُ لَهُ وَقَالَ مُعَاذٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ سَمِعَ حَفْصًا سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا وَقَالَ هِيَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ السَّبْعُ الْمَثَانِي
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (( یا ایھا الذین اٰمنوا استجیبوا للہ )) الخ کی تفسیر
مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا ، کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے خبیب بن عبدالرحمن نے انہوں نے حفص بن عاصم سے سنا اور ان سے ابو سعید بن معلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پکارا ۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نہ پہنچ سکا بلکہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حاضر ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ آنے میں دیر کیوں ہوئی ؟ کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم نہیں دیا ہے کہ ” اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہو ، جبکہ وہ ( یعنی رسول ) تم کو بلائیں “ پھر آپ نے فرمایا ، مسجد سے نکلنے سے پہلے میں تمہیں قرآن کی عظیم ترین سورہ سکھاؤں گا ۔ تھوڑی دیر بعد آپ باہر تشریف لے جانے لگے تو میں نے آپ کو یاد دلایا اور معاذ بن معاذ عنبری نے اس حدیث کو یوں روایت کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے خبیب نے ، انہوں نے حفص سے سنا اور انہوں نے ابو سعید بن معلی رضی اللہ عنہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے ، سنا اور انہوں نے بیان کیا وہ سورۃ ” الحمد للہ رب العالمین “ ہے جس میں سات آیتیں ہیں جو ہر نماز میں مکرر پڑھی جاتی ہیں ۔
تشریح :
قرآن مجید کی پوری آیت یوں ہے ولقد اٰ تیناک سبعا من المثانی والقراٰ ن العظیم ( الحجر: 87 ) اے نبی! ہم نے آپ کو قرآن مجید میں سات آیات ایسی دی ہیں جو بار بار پڑھی جاتی رہتی ہیں اور جو قرآن مجید کی بہت ہی بڑی عظمت والی آیات ہیں گویا یہ آیات قرآن عظیم کہلانے کی مستحق ہیں۔ مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس آیت میں جن آیتوں کا ذکر ہوا ہے ، اس سے سورۃہ فاتحہ مراد ہے۔ حدیث میں جسے ام الکتاب یعنی قرآن مجید کی جڑ بنیاد کہا گیا ہے۔ یہی وہ سورہ ہے جسے ہر نمازی اپنی نماز میں بار بار پڑھتا ہے۔ نماز نفل ہو یا سنت یا فرض ہر ہر رکعت میں یہ سورہ پڑھی جاتی ہے۔ سارے قرآن میں اور کوئی سورہ شریفہ ایسی نہیں ہے جو اس کا بدل ہو سکے۔ اس سورہ کے بہت سے نام ہیں، اس کو صلوٰۃ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ میں حدیث قدسی میں نقل ہوا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” قسمت الصلوٰۃ بینی وبین عبدی نصفین“ میں نے ” صلوٰۃ“ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھوں آدھ تقسیم کردیا ہے۔ چنانچہ سورۃہ فاتحہ کا آدھا حصہ تعریف وحمد وتقدیس الٰہی پر مشتمل ہے اور آگے دعاؤں اور ان کے آداب و قوانین کا بیان ہے۔ اس لیے حدیث میں صاف وارد ہوا ہے کہ لا صلوٰۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب یعنی جس نے نماز میں سورۃہ فاتحہ نہ پڑھی ہو اس کی نماز کچھ نہیں ہے۔ اسی لیے اکثر صحابہ کرام وتابعین وائمہ مجتہدین ہر نماز میں سورۃہ فاتحہ کی فرضیت کے قائل ہیں اور اسی کو راجح اور قوی مذہب قرار دیا ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے اکثر اصحاب رحمہم اللہ بھی سری نمازوں میں سورۃہ فاتحہ کے استحباب کے قائل ہیں۔ بہر حال سورۃہ فاتحہ بڑی شان وعظمت والی سورہ ہے۔ اس کی ہر ہر آیت معرفت وتوحید الٰہی کا ایک عظیم دفتر ہے۔ عقائد واعمال کا خزانہ ہے۔ ہر انصاف پسند نمازی کا فرض ہے وہ امام ہو یا مقتدی مگر اس سورۃہ شریفہ کو ضرور پڑھے تاکہ نماز میں کوئی نقص باقی نہ رہے۔ ہر نماز میں سورۃہ فاتحہ کی فرضیت کے دلائل بہت ہیں جو پیچھے کتاب الصلوٰۃ میں مفصل بیان ہو چکے ہیں وہاں ان کا مطالعہ ضروری ہے۔
قرآن مجید کی پوری آیت یوں ہے ولقد اٰ تیناک سبعا من المثانی والقراٰ ن العظیم ( الحجر: 87 ) اے نبی! ہم نے آپ کو قرآن مجید میں سات آیات ایسی دی ہیں جو بار بار پڑھی جاتی رہتی ہیں اور جو قرآن مجید کی بہت ہی بڑی عظمت والی آیات ہیں گویا یہ آیات قرآن عظیم کہلانے کی مستحق ہیں۔ مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس آیت میں جن آیتوں کا ذکر ہوا ہے ، اس سے سورۃہ فاتحہ مراد ہے۔ حدیث میں جسے ام الکتاب یعنی قرآن مجید کی جڑ بنیاد کہا گیا ہے۔ یہی وہ سورہ ہے جسے ہر نمازی اپنی نماز میں بار بار پڑھتا ہے۔ نماز نفل ہو یا سنت یا فرض ہر ہر رکعت میں یہ سورہ پڑھی جاتی ہے۔ سارے قرآن میں اور کوئی سورہ شریفہ ایسی نہیں ہے جو اس کا بدل ہو سکے۔ اس سورہ کے بہت سے نام ہیں، اس کو صلوٰۃ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ میں حدیث قدسی میں نقل ہوا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” قسمت الصلوٰۃ بینی وبین عبدی نصفین“ میں نے ” صلوٰۃ“ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھوں آدھ تقسیم کردیا ہے۔ چنانچہ سورۃہ فاتحہ کا آدھا حصہ تعریف وحمد وتقدیس الٰہی پر مشتمل ہے اور آگے دعاؤں اور ان کے آداب و قوانین کا بیان ہے۔ اس لیے حدیث میں صاف وارد ہوا ہے کہ لا صلوٰۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب یعنی جس نے نماز میں سورۃہ فاتحہ نہ پڑھی ہو اس کی نماز کچھ نہیں ہے۔ اسی لیے اکثر صحابہ کرام وتابعین وائمہ مجتہدین ہر نماز میں سورۃہ فاتحہ کی فرضیت کے قائل ہیں اور اسی کو راجح اور قوی مذہب قرار دیا ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے اکثر اصحاب رحمہم اللہ بھی سری نمازوں میں سورۃہ فاتحہ کے استحباب کے قائل ہیں۔ بہر حال سورۃہ فاتحہ بڑی شان وعظمت والی سورہ ہے۔ اس کی ہر ہر آیت معرفت وتوحید الٰہی کا ایک عظیم دفتر ہے۔ عقائد واعمال کا خزانہ ہے۔ ہر انصاف پسند نمازی کا فرض ہے وہ امام ہو یا مقتدی مگر اس سورۃہ شریفہ کو ضرور پڑھے تاکہ نماز میں کوئی نقص باقی نہ رہے۔ ہر نماز میں سورۃہ فاتحہ کی فرضیت کے دلائل بہت ہیں جو پیچھے کتاب الصلوٰۃ میں مفصل بیان ہو چکے ہیں وہاں ان کا مطالعہ ضروری ہے۔