كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ،الخ صحيح حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن عمرو بن يحيى المازني، عن أبيه، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ قال جاء رجل من اليهود إلى النبي صلى الله عليه وسلم قد لطم وجهه وقال يا محمد إن رجلا من أصحابك من الأنصار لطم وجهي. قال ادعوه . فدعوه قال لم لطمت وجهه . قال يا رسول الله، إني مررت باليهود فسمعته يقول والذي اصطفى موسى على البشر. فقلت وعلى محمد وأخذتني غضبة فلطمته. قال لا تخيروني من بين الأنبياء، فإن الناس يصعقون يوم القيامة فأكون أول من يفيق، فإذا أنا بموسى آخذ بقائمة من قوائم العرش، فلا أدري أفاق قبلي أم جزي بصعقة الطور .
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (( ولما جآءموسیٰ لمیقاتنا وکلمہ ربہ )) الخ کی تفسیر
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن یحییٰ مازنی نے ، ان سے ان کے والد یحییٰ مازنی نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، اس کے منہ پر کسی نے طمانچہ مارا تھا ۔ اس نے کہا ، اے محمد ! آپ کے انصار ی صحابہ میں سے ایک شخص نے مجھے طمانچہ مارا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، انہیں بلاؤ ۔ لوگوں نے انہیں بلایا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھاتم نے اسے طمانچہ کیوں مارا ہے ؟ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں یہودیوں کی طرف سے گزراتو میں نے سنا کہ یہ کہہ رہا تھا ، اس ذات کی قسم ! جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ، میں نے کہا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ۔ مجھے اس کی بات پر غصہ آ گیا اور میں نے اسے طمانچہ مار دیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا : مجھے انبیاءپر فضیلت نہ دیا کرو ۔ قیامت کے دن تمام لوگ بے ہوش کر دیئے جائیں گے ۔ سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا لیکن میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کا ایک پایہ پکڑے کھڑے ہوں گے ۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے یا طور کی بے ہوشی کا انہیں بدلہ دیا گیا ۔
تشریح :
آیت میں طور پر حضرت موسیٰ علےہ السلام اور اللہ تعالیٰ کی ہم کلامی کا بیان ہے جس میں حضرت موسیٰ علےہ السلام کا تجلی کے اثر سے بے ہوش ہونا بھی مذکور ہے۔ آیت اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
آیت میں طور پر حضرت موسیٰ علےہ السلام اور اللہ تعالیٰ کی ہم کلامی کا بیان ہے جس میں حضرت موسیٰ علےہ السلام کا تجلی کے اثر سے بے ہوش ہونا بھی مذکور ہے۔ آیت اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔