‌صحيح البخاري - حدیث 4621

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ} صحيح حدثنا منذر بن الوليد بن عبد الرحمن الجارودي، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن موسى بن أنس، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم خطبة ما سمعت مثلها قط، قال ‏ ‏ لو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا ‏ ‏‏.‏ قال فغطى أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وجوههم لهم خنين، فقال رجل من أبي قال فلان فنزلت هذه الآية ‏{‏لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم‏}‏‏.‏ رواه النضر وروح بن عبادة عن شعبة‏.‏

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4621

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت (( لا تسئلو عن اشیآء)) الخ کی تفسیر ہم سے منذر بن ولید بن عبدالرحمن جارودی نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے موسیٰ بن انس نے اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا خطبہ دیا کہ میں نے ویسا خطبہ کبھی نہیں سنا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہوتا تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ ۔ بیان کیا کہ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے چہرے چھپا لئے ، باوجود ضبط کے ان کے رونے کی آواز سنائی دے رہی تھی ۔ ایک صحابی نے اس موقع پر پوچھا ، میرے والد کون ہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ” ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں ۔ “ اس کی روایت نضر اور روح بن عبادہ نے شعبہ سے کی ہے ۔
تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وعظ موت اور آخرت سے متعلق تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ بے تحاشا رونے لگے کیونکہ ان کو کامل یقین حاصل تھا۔ بے جا سوال کر نے والوں کو اس آیت میں روکا گیا کہ اگر جواب میں اس کی حقیقت کھلی جس کو وہ ناگوار ی محسوس کریں تو پھر اچھا نہیں ہوگا لہذابے جا سوالات کرنے ہی مناسب نہیں ہیں۔ فقہائے کرام نے ایسے بے جا مفروضات گھڑ گھڑ کر اپنی فقاہت کے ایسے نمونے پیش کئے ہیں، جن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ تفصیلات کے لیے کتاب حقیقۃ الفقہ کا مطالعہ کیا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وعظ موت اور آخرت سے متعلق تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ بے تحاشا رونے لگے کیونکہ ان کو کامل یقین حاصل تھا۔ بے جا سوال کر نے والوں کو اس آیت میں روکا گیا کہ اگر جواب میں اس کی حقیقت کھلی جس کو وہ ناگوار ی محسوس کریں تو پھر اچھا نہیں ہوگا لہذابے جا سوالات کرنے ہی مناسب نہیں ہیں۔ فقہائے کرام نے ایسے بے جا مفروضات گھڑ گھڑ کر اپنی فقاہت کے ایسے نمونے پیش کئے ہیں، جن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ تفصیلات کے لیے کتاب حقیقۃ الفقہ کا مطالعہ کیا جائے۔