‌صحيح البخاري - حدیث 462

كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ الِاغْتِسَالِ إِذَا أَسْلَمَ، وَرَبْطِ الأَسِيرِ أَيْضًا فِي المَسْجِدِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ، فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ يُقَالُ لَهُ: ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ، فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي المَسْجِدِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ»، فَانْطَلَقَ إِلَى نَخْلٍ قَرِيبٍ مِنَ [ص:100] المَسْجِدِ، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ دَخَلَ المَسْجِدَ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 462

کتاب: نماز کے احکام و مسائل باب: جب کوئی شخص اسلام لائے ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے سعید بن ابی سعید مقبری نے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سوار نجد کی طرف بھیجے ( جو تعداد میں تیس تھے ) یہ لوگ بنو حنیفہ کے ایک شخص کو جس کا نام ثمامہ بن اثال تھا پکڑ کر لائے۔ انھوں نے اسے مسجد کے ایک ستون میں باندھ دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اور ( تیسرے روز ثمامہ کی نیک طبیعت دیکھ کر ) آپ نے فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو۔ ( رہائی کے بعد ) وہ مسجد نبوی سے قریب ایک کھجور کے باغ تک گئے۔ اور وہاں غسل کیا۔ پھر مسجد میں داخل ہوئے اور کہا اشہد ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں۔
تشریح : اثر قاضی شریح کو معمرنے وصل کیا، ایوب سے، انھوں نے ابن سیرین سے، انھوں نے قاضی شریح سے کہ وہ جب کسی شخص پر کچھ حق کا فیصلہ کرتے توحکم دیتے کہ وہ مسجد میں قیدرہے۔ یہاں تک کہ اپنے ذمہ کا حق اداکردے۔ اگروہ ادا کردیتا توخیر ورنہ اسے جیل بھیج دیاجاتا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ آج کل عدالتوں میں عدالت ختم ہونے تک قید کا حکم سنادیا جاتاہے۔ حضرت ثمامہ کایہ واقعہ دسویں محرم 6 ھ میں ہوا۔ یہ جنگی قیدی کی حیثیت میں ملے تھے۔ مگررسول اکرم نے ازراہِ کرم انھیں آزاد کردیا جس کا اثریہ ہوا کہ انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اثر قاضی شریح کو معمرنے وصل کیا، ایوب سے، انھوں نے ابن سیرین سے، انھوں نے قاضی شریح سے کہ وہ جب کسی شخص پر کچھ حق کا فیصلہ کرتے توحکم دیتے کہ وہ مسجد میں قیدرہے۔ یہاں تک کہ اپنے ذمہ کا حق اداکردے۔ اگروہ ادا کردیتا توخیر ورنہ اسے جیل بھیج دیاجاتا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ آج کل عدالتوں میں عدالت ختم ہونے تک قید کا حکم سنادیا جاتاہے۔ حضرت ثمامہ کایہ واقعہ دسویں محرم 6 ھ میں ہوا۔ یہ جنگی قیدی کی حیثیت میں ملے تھے۔ مگررسول اکرم نے ازراہِ کرم انھیں آزاد کردیا جس کا اثریہ ہوا کہ انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔