‌صحيح البخاري - حدیث 4607

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ: {فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا} صحيح حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض أسفاره، حتى إذا كنا بالبيداء أو بذات الجيش انقطع عقد لي، فأقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على التماسه، وأقام الناس معه، وليسوا على ماء، وليس معهم ماء فأتى الناس إلى أبي بكر الصديق فقالوا ألا ترى ما صنعت عائشة أقامت برسول الله صلى الله عليه وسلم وبالناس، وليسوا على ماء، وليس معهم ماء، فجاء أبو بكر ورسول الله صلى الله عليه وسلم واضع رأسه على فخذي قد نام، فقال حبست رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس، وليسوا على ماء، وليس معهم ماء قالت عائشة فعاتبني أبو بكر، وقال ما شاء الله أن يقول، وجعل يطعنني بيده في خاصرتي، ولا يمنعني من التحرك إلا مكان رسول الله صلى الله عليه وسلم على فخذي، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى أصبح على غير ماء، فأنزل الله آية التيمم فقال أسيد بن حضير ما هي بأول بركتكم يا آل أبي بكر‏.‏ قالت فبعثنا البعير الذي كنت عليه فإذا العقد تحته‏.‏

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4607

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت (( فلم تجدوامآءفتیمموا صعیدا طیبا )) کی تفسیر ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے عبدالرحمن بن قاسم نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد قاسم بن محمد نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے ۔ جب ہم مقام بیداءیا ذات الجیش تک پہنچے تو میرا ہار گم ہو گیا ۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تلاش کر وانے کے لیے وہیں قیام کیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قیام کیا ۔ وہاں کہیں پانی نہیں تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ بھی پانی نہیں تھا ۔ لوگ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے ، ملاحظہ نہیں فرماتے ، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کر رکھا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہیں ٹھہرا لیا اور ہمیں بھی ، حالانکہ یہاں کہیں پانی نہیں ہے اور نہ کسی کے پاس پانی ہے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ( میرے یہاں ) آئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سر مبارک میری ران پر رکھ کرسو گئے تھے اور کہنے لگے تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اور سب کو روک لیا ، حالانکہ یہاں کہیں پانی نہیں ہے اور نہ کسی کے ساتھ پانی ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ مجھ پر بہت خفا ہوئے اور جو اللہ کو منظور تھا مجھے کہا سنا اور ہاتھ سے میری کو نکھ میں کچوکے لگائے ۔ میں نے صرف اس خیال سے کوئی حرکت نہیں کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر اپنا سر رکھے ہوئے تھے ، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور صبح تک کہیں پانی کا نام و نشان نہیں تھا ، پھر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری تو اسید بن حضیر نے کہا کہ آل ابی بکر ! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے ۔ بیان کیا کہ پھر ہم نے وہ اونٹ اٹھایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے مل گیا ۔
تشریح : حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ تمہاری وجہ سے بہت سی آیات واحکام کا نزول ہوا ہے جیسا کہ یہ آیت تیمم موجود ہے جو تمہاری موجودہ پریشانی کی برکت میں نازل ہوئی، اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ تیمم کا راجح طریقہ یہی ہے کہ پاک مٹی پر دونوں ہاتھوں کو مار کر ان کو چہرے اور ہتھیلیوں پر پھیر لیا جائے۔ اس کے لیے ایک ہی دفعہ ہاتھ مارلینا کافی ہے۔ بخاری شرےف میں ایسا ہی ہے۔ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ تمہاری وجہ سے بہت سی آیات واحکام کا نزول ہوا ہے جیسا کہ یہ آیت تیمم موجود ہے جو تمہاری موجودہ پریشانی کی برکت میں نازل ہوئی، اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ تیمم کا راجح طریقہ یہی ہے کہ پاک مٹی پر دونوں ہاتھوں کو مار کر ان کو چہرے اور ہتھیلیوں پر پھیر لیا جائے۔ اس کے لیے ایک ہی دفعہ ہاتھ مارلینا کافی ہے۔ بخاری شرےف میں ایسا ہی ہے۔