كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ (إِنَّ المُنَافِقِينَ فِي اَلدَّرَكِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ) صحيح حدثنا عمر بن حفص، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، قال حدثني إبراهيم، عن الأسود، قال كنا في حلقة عبد الله فجاء حذيفة حتى قام علينا، فسلم ثم قال لقد أنزل النفاق على قوم خير منكم. قال الأسود سبحان الله، إن الله يقول {إن المنافقين في الدرك الأسفل من النار} فتبسم عبد الله، وجلس حذيفة في ناحية المسجد، فقام عبد الله فتفرق أصحابه، فرماني بالحصا، فأتيته فقال حذيفة عجبت من ضحكه، وقد عرف ما قلت، لقد أنزل النفاق على قوم كانوا خيرا منكم، ثم تابوا فتاب الله عليهم.
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (( ان المنافقین فی الدرک الاسفل )) کی تفسیر
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ، کہا ان سے ان کے باپ نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا ، ان سے اسود نے بیان کیا کہ ہم حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حلقہ درس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور ہمارے پاس کھڑے ہو کر سلام کیا ۔ پھر کہا نفاق میں وہ جماعت مبتلا ہو گئی جو تم سے بہتر تھی ۔ اس پر اسود بولے ، سبحان اللہ ، اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ” منافق دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے ۔ “ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مسکرانے لگے اور حذیفہ رضی اللہ عنہ مسجد کے کونے میںجاکر بیٹھ گئے ۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اٹھ گئے اور آپ کے شاگرد بھی ادھر ادھر چلے گئے ، پھرحذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھ پر کنکری پھینکی ( یعنی مجھ کو بلایا ) میں حاضر ہوگیاتو کہا کہ مجھے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ہنسی پر حیرت ہوئی حالانکہ جو کچھ میں نے کہا تھا اسے وہ خوب سمجھتے تھے ۔ یقینا نفاق میں ایک جماعت کو مبتلا کیا گیا تھا جو تم سے بہتر تھی ، اس لیے کہ پھر انہوں نے توبہ کر لی اور اللہ نے بھی ان کی توبہ قبول کرلی ۔
تشریح :
اسودکویہ تعجب ہوا کہ بھلا منافق لوگ ہم مسلمانوں سے کیونکر بہتر ہوسکتے ہیں۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ وہ لوگ تم سے بہتر تھے یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم کے قرن میں تھے۔ تم تابعین کے قرن میں ہو۔ وہ نفاق کی وجہ سے خراب ہو گئے ، دین سے پھر گئے ، مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی وہ عند اللہ مقبول ہو گئے۔
اسودکویہ تعجب ہوا کہ بھلا منافق لوگ ہم مسلمانوں سے کیونکر بہتر ہوسکتے ہیں۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ وہ لوگ تم سے بہتر تھے یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم کے قرن میں تھے۔ تم تابعین کے قرن میں ہو۔ وہ نفاق کی وجہ سے خراب ہو گئے ، دین سے پھر گئے ، مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی وہ عند اللہ مقبول ہو گئے۔