‌صحيح البخاري - حدیث 4598

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {فَأُولَئِكَ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَعْفُوَ عَنْهُمْ وَكَانَ اللَّهُ عَفُوًّا غَفُورًا} صحيح حدثنا أبو نعيم، حدثنا شيبان، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال بينا النبي صلى الله عليه وسلم يصلي العشاء إذ قال ‏ ‏ سمع الله لمن حمده ‏ ‏‏.‏ ثم قال قبل أن يسجد ‏ ‏ اللهم نج عياش بن أبي ربيعة، اللهم نج سلمة بن هشام، اللهم نج الوليد بن الوليد، اللهم نج المستضعفين من المؤمنين، اللهم اشدد وطأتك على مضر، اللهم اجعلها سنين كسني يوسف ‏ ‏‏.‏

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4598

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت (( فعسی اللہ ان یعفوعنہم )) الخ کی تفسیر ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا ، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا ، ان سے ابو سلمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاءکی نماز میں ( رکوع سے اٹھتے ہوئے ) سمع اللہ لمن حمدہ کہا اور پھر سجدہ میں جانے سے پہلے یہ دعا کی ۔ ” اے اللہ ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے ۔ اے اللہ ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے ۔ اے اللہ ! ولید بن ولید کو نجات دے ۔ اے اللہ کمزور مومنوں کو نجات دے ۔ اے اللہ ! کفار مضر کو سخت سزادے ۔ اے اللہ انہیں ایسی قحطسالی میں مبتلا کر جیسی حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں قحط سالی آئی تھی ۔
تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کمزور مسلمانوں کے لیے تھی جو مکہ میں پھنسے رہ گئے تھے۔ مضر قبیلہ کے لیے بد دعا اس واسطے کی کہ انہوں نے مسلمانوں کو خاص طور پر سخت نقصان پہنچایا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو کافر مسلمانوں کو ستائیں ان پر قحط اور بیماری کی بد دعا کرنا درست ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کمزور مسلمانوں کے لیے تھی جو مکہ میں پھنسے رہ گئے تھے۔ مضر قبیلہ کے لیے بد دعا اس واسطے کی کہ انہوں نے مسلمانوں کو خاص طور پر سخت نقصان پہنچایا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو کافر مسلمانوں کو ستائیں ان پر قحط اور بیماری کی بد دعا کرنا درست ہے۔