كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ المَلاَئِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ، قَالُوا: فِيمَ كُنْتُمْ؟ قَالُوا: كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الأَرْضِ، قَالُوا: أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا} الآيَةَ صحيح حدثنا عبد الله بن يزيد المقرئ، حدثنا حيوة، وغيره، قالا حدثنا محمد بن عبد الرحمن أبو الأسود، قال قطع على أهل المدينة بعث فاكتتبت فيه، فلقيت عكرمة مولى ابن عباس فأخبرته، فنهاني عن ذلك أشد النهى، ثم قال أخبرني ابن عباس أن ناسا من المسلمين كانوا مع المشركين يكثرون سواد المشركين على رسول الله صلى الله عليه وسلم يأتي السهم فيرمى به، فيصيب أحدهم فيقتله أو يضرب فيقتل، فأنزل الله {إن الذين توفاهم الملائكة ظالمي أنفسهم} الآية. رواه الليث عن أبي الأسود.
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب:آیت (( ان الذین توفاھم الملائکۃ )) کی تفسیر
ہم سے عبداللہ بن یزید المقری نے بیان کیا ، کہا ہم سے حیوہ بن شریح وغیرہ ( ابن لہیعہ ) نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے محمد بن عبدالرحمن ابو الاسود نے بیان کیا ، کہا کہ اہل مدینہ کو ( جب مکہ میں ابن زبیر رضی اللہ عنہماکی خلافت کا دور تھا ) شام والوں کے خلاف ایک فوج نکالنے کا حکم دیا گیا ۔ اس فوج میں میرا نام بھی لکھا گیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام عکرمہ سے میں ملا اور انہیں اس صورت حال کی اطلاع کی ۔ انہوں نے بڑی سختی کے ساتھ اس سے منع کیا اور فرمایا کہ مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی تھی کہ کچھ مسلمان مشرکین کے ساتھ رہتے تھے اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ان کی زیادتی کا سبب بنتے ، پھر تیر آتا اور وہ سامنے پڑ جاتے تو انہیں لگ جاتا اور اس طرح ان کی جان جاتی یا تلوار سے ( غلطی میں ) انہیں قتل کر دیا جاتا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فر مائی ” بیشک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ہے ( جب ) فرشتے قبض کرتے ہیں “ آخر آیت تک ۔ اس روایت کو لیث بن سعد نے بھی ابو اسود سے نقل کیا ہے ۔
تشریح :
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کسی مسلمان کے لیے دشمنوں کی فوج میں بھرتی ہونا جائز نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کسی مسلمان کے لیے دشمنوں کی فوج میں بھرتی ہونا جائز نہیں ہے۔