كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ} {وَالمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ} صحيح حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال حدثني إبراهيم بن سعد، عن صالح بن كيسان، عن ابن شهاب، قال حدثني سهل بن سعد الساعدي، أنه رأى مروان بن الحكم في المسجد، فأقبلت حتى جلست إلى جنبه، فأخبرنا أن زيد بن ثابت أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أملى عليه لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله فجاءه ابن أم مكتوم وهو يملها على قال يا رسول الله، والله لو أستطيع الجهاد لجاهدت ـ وكان أعمى ـ فأنزل الله على رسوله صلى الله عليه وسلم وفخذه على فخذي، فثقلت على حتى خفت أن ترض فخذي، ثم سري عنه، فأنزل الله {غير أولي الضرر}
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (( لا یستوی القاعدون من المومنین )) الخ کی تفسیر
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، ان سے صالح بن کیسان نے ، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا انہوں نے مروان بن حکم بن عاص کو مسجد میں دیکھا ( بیان کیا کہ ) پھر میں ان کے پاس آیا اور ان کے پہلو میں بیٹھ گیا ، انہوں نے مجھے خبر دی اور انہیں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے خبر دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ آیت لکھوائی ” مسلمانوں میں سے ( گھر ) بیٹھ رہنے والے اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہوسکتے ۔ “ ابھی آپ یہ آیت لکھواہی رہے تھے کہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آگئے اور عرض کیا اللہ کی قسم ! یا رسول اللہ ! اگر میں جہاد میں شرکت کرسکتا تو یقینا جہاد کرتا ۔ وہ اندھے تھے ۔ اس کے بعد اللہ نے اپنے رسول پر وحی اتاری ۔ آپ کی ران میری ران پر تھی ( شدت وحی کی وجہ سے ) اس کا مجھ پر اتنا بوجھ پڑا کہ مجھے اپنی ران کے پھٹ جانے کا اندیشہ ہو گیا ۔ آخر یہ کیفیت ختم ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ” غیر اولی الضرر “ کے الفاظ اور نازل کئے ۔
تشریح :
یعنی جو لوگ معذور ہیں وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ ان لفظوں کے اترنے سے عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اور دوسرے معذور لوگوں کو تسلی ہو گئی کہ ان کا مرتبہ مجاہدین سے کم نہیں ہے۔ البتہ جو لوگ قدرت رکھ کر جہاد نہ کریں وہ مجاہدین کا درجہ نہیں پا سکتے۔
یعنی جو لوگ معذور ہیں وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ ان لفظوں کے اترنے سے عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اور دوسرے معذور لوگوں کو تسلی ہو گئی کہ ان کا مرتبہ مجاہدین سے کم نہیں ہے۔ البتہ جو لوگ قدرت رکھ کر جہاد نہ کریں وہ مجاہدین کا درجہ نہیں پا سکتے۔