كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ} صحيح حدثنا آدم بن أبي إياس، حدثنا شعبة، حدثنا مغيرة بن النعمان، قال سمعت سعيد بن جبير، قال {آية} اختلف فيها أهل الكوفة، فرحلت فيها إلى ابن عباس فسألته عنها فقال نزلت هذه الآية {ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم} هي آخر ما نزل وما نسخها شىء.
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (( ومن یقتل مومنا متعمدا فجزاوہ جھنم )) الخ کی تفسیر
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے مغیرہ بن نعمان نے بیان کیا ، کہا میں نے سعید بن جبیر سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ علماءکوفہ کا اس آیت کے بارے میں اختلاف ہو گیا تھا ۔ چنانچہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں اس کے لئے سفر کر کے گیا اور ان سے اس کے متعلق پوچھا ۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت ” اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے ۔ “ نازل ہوئی اور اس باب کی یہ سب سے آخری آیت ہے اسے کسی آیت نے منسوخ نہیں کیا ہے ۔
تشریح :
بلا وجہ ہر انسان کا خون ناحق بہت بڑا گناہ ہے۔ قرآن مجید نے ایسے خونی انسانوں کو پوری نوع انسانی کا قاتل قرار دیا ہے اور اسے بہت بڑا فساد ی مجرم بتلایا ہے پھر اگر یہ خون ناحق کسی مومن مسلمان کا ہے تو اس قاتل کوقرآن مجید نے ابدی دوزخی قرار دیا ہے جو قرآنی اصطلاح میں ایک سنگین ترین اور آخری سزا ہے۔ اسی آیت کے مطابق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما قاتل مومن کی توبہ قبول نہ ہونے کے قائل تھے۔ مگر سورۃ فرقان میں الا من تاب واٰمن وعمل عملاصالحا ( الفرقان : 70 ) کے تحت جمہور اس کی توبہ کے قائل ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ روایت میں مذکور ہ بزرگ ترین تابعی حضرت سعید بن جبیر کے عبرت انگیز حالات یہ ہیں۔ یہ سعید بن جبیر اسدی کوفی ہیں، جلیل القدر تابعین میں سے ایک یہ بھی ہیں۔ انہوں نے ابو مسعود ، ابن عباس، ابن عمر ، ابن زبیر اور انس رضی اللہ عنہم سے علم حاصل کیااور ان سے بہت لوگوں نے۔ ماہ شعبان 95ھ میں جبکہ ان کی عمر انچاس سال کی تھی حجاج بن یوسف نے ان کو قتل کرایا اور خود حجاج رمضان میں مرا اور بعض کے نزدیک اسی سال شوال میں اور یوں بھی کہتے ہیں کہ ان کی شہادت کے چھ ماہ بعد مرا۔ ان کے بعد حجاج کسی کے قتل پر قادر نہیں ہو ا کیونکہ سعید نے اس کے لئے دعا کی تھی۔ جبکہ حجاج ان سے مخاطب ہو کر بولا کہ تم کو کس طرح قتل کیا جائے، میں تم کو اسی طرح قتل کروں گا۔ جبیر بولے کہ اے حجاج! تو اپنا قتل ہونا جس طرح چاہے وہ بتلا اس لیے کہ خدا کی قسم! جس طرح تو مجھ کو قتل کرے گا اسی طرح آخرت میں میں تجھ کو قتل کروںگا۔ حجاج بولا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ میں تم کو معاف کردوں؟ بولے کہ اگر عفو واقع ہوا تو اللہ کی طرف سے ہوگا اور رہا تو اس میں تیرے لیے کوئی برات و عذر نہیں۔ حجاج یہ سن کر بولا کہ ان کو لے جاؤ اور قتل کر ڈالو۔ پس جب ان کو دروازہ سے باہر نکالا تو یہ ہنس پڑے۔ اس کی اطلاع حجاج کو پہنچائی گئی تو حکم دیا کہ ان کو واپس لاؤ، لہذا واپس لایا گیا تو اس نے پوچھا کہ اب ہنسنے کا کیا سبب تھا؟ بولے کہ مجھ کو اللہ کے مقابلے میں تیری بیباکی اور اللہ تعالیٰ کی تیرے مقابل میں حلم و برد باری پر تعجب ہو تا ہے۔ حجاج نے یہ سن کر حکم دیا کہ کھال بچھائی جائے تو بچھائی گئی۔ پھرحکم دیا کہ ان کو قتل کر دیا جائے۔ اس کے بعد سعید بن جبیر نے فرمایا کہ وجھت وجھی للذی فطر السمٰوٰت والارض حنیفا وما انا من المشرکین ( الانعام: 79 ) یعنی ” میں نے اپنا رخ سب سے موڑ کر اس خدا کی طرف کر لیا ہے کہ جو خالق آسمان وزمین ہے اور میں شرک کرنے والوں میں نہیں۔ “ حجاج نے یہ سن کر حکم دیا کہ ان کو قبلہ کی مخالف سمت کر کے مضبوط باندھ دیا جائے۔ سعید نے فرمایا فاینما تولوافثم وجہ اللہ ( البقرہ: 115 ) جس طرف کو بھی تم رخ کروگے اسی طرف اللہ ہے۔ اب حجاج نے حکم دیا کہ سر کے بل اوندھا کر دیا جائے۔ سعید نے فرمایا، منھا خلقنٰکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃً اخریٰ ( طہ : 55 ) حجاج نے یہ سن کر حکم دیا اس کو ذبح کردو۔ سعید نے فرمایا کہ میں شہادت دیتا ہوں اور حجت پیش کرتا ہوں اس بات کی کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں ، وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اس بات کی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ یہ ( حجت ایمانی ) میری طرف سے سنبھال یہاں تک کہ تو مجھ سے قیامت کے دن ملے۔ پھر سعید نے دعا کی کہ اے اللہ ! حجاج کو میرے بعد کسی کے قتل پر قادر نہ کر۔ اس کے بعد کھال پر ان کو ذبح کردیا گیا۔ کہتے ہیں کہ حجاج ان کے قتل کے بعد پندرہ راتیں اور جیا اس کے بعد حجاج کے پیٹ میں کیڑوں کی بیماری پیدا ہوگئی۔ حجاج نے حکیم کو بلوایا تاکہ معائنہ کرے۔ حکیم نے گوشت کا ایک سڑاہوا ٹکڑا منگوایا اور اس کو دھاگے میں پرو کر اس کے گلے سے اتارا اور کچھ دیر تک چھوڑ رکھا۔ اس کے بعد حکیم نے اس کو نکالا تو دیکھا کہ خون سے بھرا ہوا ہے۔ حکیم سمجھ گیا کہ اب یہ بچنے والا نہیں ہے۔ حجاج اپنی بقیہ زندگی میں چیختا رہتا تھا کہ مجھے اور سعید کو کیا ہو گیا کہ جب میں سوتا ہوں تو میرا پاؤں پکڑ کر ہلا دیتا ہے۔ سعید بن جبیر عراق کی کھلی آبادی میں دفن کئے گئے۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ
بلا وجہ ہر انسان کا خون ناحق بہت بڑا گناہ ہے۔ قرآن مجید نے ایسے خونی انسانوں کو پوری نوع انسانی کا قاتل قرار دیا ہے اور اسے بہت بڑا فساد ی مجرم بتلایا ہے پھر اگر یہ خون ناحق کسی مومن مسلمان کا ہے تو اس قاتل کوقرآن مجید نے ابدی دوزخی قرار دیا ہے جو قرآنی اصطلاح میں ایک سنگین ترین اور آخری سزا ہے۔ اسی آیت کے مطابق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما قاتل مومن کی توبہ قبول نہ ہونے کے قائل تھے۔ مگر سورۃ فرقان میں الا من تاب واٰمن وعمل عملاصالحا ( الفرقان : 70 ) کے تحت جمہور اس کی توبہ کے قائل ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ روایت میں مذکور ہ بزرگ ترین تابعی حضرت سعید بن جبیر کے عبرت انگیز حالات یہ ہیں۔ یہ سعید بن جبیر اسدی کوفی ہیں، جلیل القدر تابعین میں سے ایک یہ بھی ہیں۔ انہوں نے ابو مسعود ، ابن عباس، ابن عمر ، ابن زبیر اور انس رضی اللہ عنہم سے علم حاصل کیااور ان سے بہت لوگوں نے۔ ماہ شعبان 95ھ میں جبکہ ان کی عمر انچاس سال کی تھی حجاج بن یوسف نے ان کو قتل کرایا اور خود حجاج رمضان میں مرا اور بعض کے نزدیک اسی سال شوال میں اور یوں بھی کہتے ہیں کہ ان کی شہادت کے چھ ماہ بعد مرا۔ ان کے بعد حجاج کسی کے قتل پر قادر نہیں ہو ا کیونکہ سعید نے اس کے لئے دعا کی تھی۔ جبکہ حجاج ان سے مخاطب ہو کر بولا کہ تم کو کس طرح قتل کیا جائے، میں تم کو اسی طرح قتل کروں گا۔ جبیر بولے کہ اے حجاج! تو اپنا قتل ہونا جس طرح چاہے وہ بتلا اس لیے کہ خدا کی قسم! جس طرح تو مجھ کو قتل کرے گا اسی طرح آخرت میں میں تجھ کو قتل کروںگا۔ حجاج بولا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ میں تم کو معاف کردوں؟ بولے کہ اگر عفو واقع ہوا تو اللہ کی طرف سے ہوگا اور رہا تو اس میں تیرے لیے کوئی برات و عذر نہیں۔ حجاج یہ سن کر بولا کہ ان کو لے جاؤ اور قتل کر ڈالو۔ پس جب ان کو دروازہ سے باہر نکالا تو یہ ہنس پڑے۔ اس کی اطلاع حجاج کو پہنچائی گئی تو حکم دیا کہ ان کو واپس لاؤ، لہذا واپس لایا گیا تو اس نے پوچھا کہ اب ہنسنے کا کیا سبب تھا؟ بولے کہ مجھ کو اللہ کے مقابلے میں تیری بیباکی اور اللہ تعالیٰ کی تیرے مقابل میں حلم و برد باری پر تعجب ہو تا ہے۔ حجاج نے یہ سن کر حکم دیا کہ کھال بچھائی جائے تو بچھائی گئی۔ پھرحکم دیا کہ ان کو قتل کر دیا جائے۔ اس کے بعد سعید بن جبیر نے فرمایا کہ وجھت وجھی للذی فطر السمٰوٰت والارض حنیفا وما انا من المشرکین ( الانعام: 79 ) یعنی ” میں نے اپنا رخ سب سے موڑ کر اس خدا کی طرف کر لیا ہے کہ جو خالق آسمان وزمین ہے اور میں شرک کرنے والوں میں نہیں۔ “ حجاج نے یہ سن کر حکم دیا کہ ان کو قبلہ کی مخالف سمت کر کے مضبوط باندھ دیا جائے۔ سعید نے فرمایا فاینما تولوافثم وجہ اللہ ( البقرہ: 115 ) جس طرف کو بھی تم رخ کروگے اسی طرف اللہ ہے۔ اب حجاج نے حکم دیا کہ سر کے بل اوندھا کر دیا جائے۔ سعید نے فرمایا، منھا خلقنٰکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃً اخریٰ ( طہ : 55 ) حجاج نے یہ سن کر حکم دیا اس کو ذبح کردو۔ سعید نے فرمایا کہ میں شہادت دیتا ہوں اور حجت پیش کرتا ہوں اس بات کی کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں ، وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اس بات کی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ یہ ( حجت ایمانی ) میری طرف سے سنبھال یہاں تک کہ تو مجھ سے قیامت کے دن ملے۔ پھر سعید نے دعا کی کہ اے اللہ ! حجاج کو میرے بعد کسی کے قتل پر قادر نہ کر۔ اس کے بعد کھال پر ان کو ذبح کردیا گیا۔ کہتے ہیں کہ حجاج ان کے قتل کے بعد پندرہ راتیں اور جیا اس کے بعد حجاج کے پیٹ میں کیڑوں کی بیماری پیدا ہوگئی۔ حجاج نے حکیم کو بلوایا تاکہ معائنہ کرے۔ حکیم نے گوشت کا ایک سڑاہوا ٹکڑا منگوایا اور اس کو دھاگے میں پرو کر اس کے گلے سے اتارا اور کچھ دیر تک چھوڑ رکھا۔ اس کے بعد حکیم نے اس کو نکالا تو دیکھا کہ خون سے بھرا ہوا ہے۔ حکیم سمجھ گیا کہ اب یہ بچنے والا نہیں ہے۔ حجاج اپنی بقیہ زندگی میں چیختا رہتا تھا کہ مجھے اور سعید کو کیا ہو گیا کہ جب میں سوتا ہوں تو میرا پاؤں پکڑ کر ہلا دیتا ہے۔ سعید بن جبیر عراق کی کھلی آبادی میں دفن کئے گئے۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ