كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ (وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ، وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا) صحيح حدثني الصلت بن محمد، حدثنا أبو أسامة، عن إدريس، عن طلحة بن مصرف، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ {ولكل جعلنا موالي} قال ورثة. {والذين عاقدت أيمانكم} كان المهاجرون لما قدموا المدينة يرث المهاجر الأنصاري دون ذوي رحمه للأخوة التي آخى النبي صلى الله عليه وسلم بينهم فلما نزلت {ولكل جعلنا موالي} نسخت، ثم قال {والذين عاقدت أيمانكم } من النصر، والرفادة والنصيحة، وقد ذهب الميراث ويوصي له. سمع أبو أسامة إدريس، وسمع إدريس طلحة.
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت ( ولکل جعلنا موالی مما ترک الوالدان ) الخ کی تفسیر
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا ، ان سے ادریس نے ، ان سے طلحہ بن مصرف نے ، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ( آیت میں ) ” لکل جعلنا موالی “ سے مراد وارث ہیں اور والذین عقدت ایمانکم کی تفسیر یہ ہے کہ شروع میں جب مہاجرین مدینہ آئے تو قرابت داروں کے علاوہ انصار کے وارث مہاجرین بھی ہوتے تھے ۔ اس بھائی چارہ کی وجہ سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان کرایا تھا ، پھر جب یہ آیت نازل ہوئی کہ لکل جعلنا موالی تو پہلا طریقہ منسوخ ہو گیا پھر بیان کیا کہ والذین عقدت ایمانکم سے وہ لوگ مراد ہیں ، جن سے دوستی اور مدد اور خیر خواہی کی قسم کھا کر عہد کیا جائے ۔ لیکن اب ان کے لیے میراث کا حکم منسوخ ہو گیا ۔ مگر وصیت کا حکم رہ گیا ۔ اس اسناد میں ابو اسامہ نے ادریس سے اور ادریس نے طلحہ بن مصرف سے سنا ہے ۔
تشریح :
مہاجرین جب مدینہ آئے تو انصار نے ان کو منہ بولا بھائی بنا لیا تھا۔ یہاں تک کہ ان کو اپنے ترکہ میں حصہ دار بنا لیا ، بعد میں بتلایا گیا کہ ترکہ کے وارث صرف اولاداور متعلقین ہی ہو سکتے ہیں۔ ہاں تہائی مال کی وصیت کرنے کا حق دیا گیا ، اگر مرنے والا چاہے تو یہ وصیت اپنے منہ بولے بھائیوں کے لیے بھی کرسکتا ہے۔
مہاجرین جب مدینہ آئے تو انصار نے ان کو منہ بولا بھائی بنا لیا تھا۔ یہاں تک کہ ان کو اپنے ترکہ میں حصہ دار بنا لیا ، بعد میں بتلایا گیا کہ ترکہ کے وارث صرف اولاداور متعلقین ہی ہو سکتے ہیں۔ ہاں تہائی مال کی وصیت کرنے کا حق دیا گیا ، اگر مرنے والا چاہے تو یہ وصیت اپنے منہ بولے بھائیوں کے لیے بھی کرسکتا ہے۔