‌صحيح البخاري - حدیث 4566

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا} صحيح حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني عروة بن الزبير، أن أسامة بن زيد ـ رضى الله عنهما ـ أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب على حمار على قطيفة فدكية، وأردف أسامة بن زيد وراءه، يعود سعد بن عبادة في بني الحارث بن الخزرج قبل وقعة بدر ـ قال ـ حتى مر بمجلس فيه عبد الله بن أبى، ابن سلول، وذلك قبل أن يسلم عبد الله بن أبى فإذا في المجلس أخلاط من المسلمين والمشركين عبدة الأوثان واليهود والمسلمين، وفي المجلس عبد الله بن رواحة، فلما غشيت المجلس عجاجة الدابة خمر عبد الله بن أبى أنفه بردائه، ثم قال لا تغبروا علينا‏.‏ فسلم رسول الله صلى الله عليه وسلم عليهم ثم وقف فنزل فدعاهم إلى الله، وقرأ عليهم القرآن، فقال عبد الله بن أبى ابن سلول أيها المرء، إنه لا أحسن مما تقول، إن كان حقا، فلا تؤذينا به في مجلسنا، ارجع إلى رحلك، فمن جاءك فاقصص عليه‏.‏ فقال عبد الله بن رواحة بلى يا رسول الله، فاغشنا به في مجالسنا، فإنا نحب ذلك‏.‏ فاستب المسلمون والمشركون واليهود حتى كادوا يتثاورون، فلم يزل النبي صلى الله عليه وسلم يخفضهم حتى سكنوا، ثم ركب النبي صلى الله عليه وسلم دابته فسار حتى دخل على سعد بن عبادة، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ يا سعد ألم تسمع ما قال أبو حباب ‏ ‏‏.‏ يريد عبد الله بن أبى ‏ ‏ قال كذا وكذا ‏ ‏‏.‏ قال سعد بن عبادة يا رسول الله، اعف عنه واصفح عنه، فوالذي أنزل عليك الكتاب، لقد جاء الله بالحق الذي أنزل عليك، لقد اصطلح أهل هذه البحيرة على أن يتوجوه فيعصبونه بالعصابة، فلما أبى الله ذلك بالحق الذي أعطاك الله شرق بذلك، فذلك فعل به ما رأيت‏.‏ فعفا عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه يعفون عن المشركين وأهل الكتاب كما أمرهم الله، ويصبرون على الأذى قال الله عز وجل ‏{‏ولتسمعن من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم ومن الذين أشركوا أذى كثيرا ‏}‏ الآية، وقال الله ‏{‏ود كثير من أهل الكتاب لو يردونكم من بعد إيمانكم كفارا حسدا من عند أنفسهم‏}‏ إلى آخر الآية، وكان النبي صلى الله عليه وسلم يتأول العفو ما أمره الله به، حتى أذن الله فيهم، فلما غزا رسول الله صلى الله عليه وسلم بدرا، فقتل الله به صناديد كفار قريش قال ابن أبى ابن سلول، ومن معه من المشركين، وعبدة الأوثان هذا أمر قد توجه‏.‏ فبايعوا الرسول صلى الله عليه وسلم على الإسلام فأسلموا‏.‏

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4566

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت ( ولتسمعن من الذین اوتوا الکتاب ) کی تفسیر ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے کی پشت پر فدک کی بنی ہوئی ایک موٹی چادر رکھنے کے بعد سوار ہوئے اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے بٹھایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو حارث بن خزرج میں سعد بن عبادہ رضی اللہ کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے جارہے تھے ۔ یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے ۔ راستہ میں ایک مجلس سے آپ گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول ( منافق ) بھی موجود تھا ، یہ عبداللہ بن ابی کے ظاہر ی اسلام لانے سے بھی پہلے کا قصہ ہے ۔ مجلس میں مسلمان اور مشرکین یعنی بت پرست اور یہودی سب ہی طرح کے لوگ تھے ، انہیں میں عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ سواری کی ( ٹاپوں سے گرد اڑی اور ) مجلس والوں پر پڑی تو عبداللہ بن ابی نے چادر سے اپنی ناک بند کر لی اور بطور تحقیر کہنے لگا کہ ہم پر گرد نہ اڑاؤ ، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قریب پہنچ گئے اور انہیں سلام کیا ، پھر آپ سواری سے اتر گئے اور مجلس والوں کو اللہ کی طرف بلایا اور قرآن کی آیتیں پڑھ کر سنائیں ۔ اس پر عبد اللہ بن ابی ابن سلول کہنے لگا ، جو کلام آپ نے پڑھ کر سنا یا ہے ، اس سے عمدہ کوئی کلام نہیں ہوسکتا ۔ اگرچہ یہ کلام بہت اچھا ، پھر بھی ہماری مجلسوں میں آ آ کر آپ ہمیں تکلیف نہ دیا کریں ، اپنے گھر بیٹھیں ، اگر کوئی آپ کے پاس جائے تو اسے اپنی باتیں سنایا کریں ۔ ( یہ سن کر ) عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا ، ضرور یا رسول اللہ ! آپ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں ، ہم اسی کو پسند کرتے ہیں ۔ اس کے بعد مسلمان ، مشرکین اور یہودی آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے اور قریب تھا کہ فساد اور لڑائی تک کی نوبت پہنچ جاتی لیکن آپ نے انہیں خاموش اور ٹھنڈا کردیا اور آخرسب لوگ خاموش ہو گئے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہو کر وہاں سے چلے آئے اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لے گئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے بھی اس کا ذکر کیاکہ سعد ! تم نے نہیں سنا ، ابوحباب ، آپ کی مراد عبد اللہ بن ابی ابن سلول سے تھی ، کیا کہہ رہا تھا ؟ اس نے اس طرح کی باتیں کی ہیں ۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ اسے معاف فرمادیں اور اس سے در گزر کردیں ۔ اس ذات کی قسم ! جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ وہ حق بھیجا ہے جو اس نے آپ پر نازل کیا ہے ، اس شہر ( مدینہ ) کے لوگ ( پہلے ) اس پر متفق ہو چکے تھے کہ اس ( عبداللہ بن ابی ) کو تاج پہنادیں اور ( شاہی ) عمامہ اس کے سر پر باندھ دیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس حق کے ذریعہ جو آپ کو اس نے عطا کیا ہے ، اس باطل کو روک دیا تو اب وہ چڑ گیا ہے اور اس وجہ سے وہ معاملہ اس نےآپ کے ساتھ کیا جو آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے ۔ آپ نے اسے معاف کردیا ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم مشرکین اور اہل کتاب سے در گزر کیا کرتے تھے اور ان کی اذیتوں پر صبر کیا کرتے تھے ۔ اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ” اور یقینا تم بہت سی دل آزاری کی باتیں ان سے بھی سنو گے ، جنہیں تم سے پہلے کتاب مل چکی ہے اور ان سے بھی جو مشرک ہیں اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یہ بڑے عزم وحوصلہ کی بات ہے “ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” بہت سے اہل کتاب تو دل ہی سے چاہتے ہیں کہ تمہیں ایمان ( لے آنے ) کے بعد پھر سے کافر بنا لیں ، حسد کی راہ سے جو ان کے دلوں میں ہے ۔ “ آخر آیت تک ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کفار کو معاف کردیا کرتے تھے ۔ آخر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے ساتھ جنگ کی اجازت دے دی اور جب آپ نے غزوئہ بدر کیا تو اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق قریش کے کافر سردار اس میں مارے گئے تو عبداللہ بن ابی ابن سلول اور اس کے دوسرے مشرک اور بت پرست ساتھیوں نے آپس میں مشورہ کرکے ان سب نے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کر لی اور ظاہراً اسلام میں داخل ہو گئے ۔
تشریح : آیت میں مسلمانوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین سے تم کو ہوشیار رہنا ہوگا وہ ہمیشہ تم کو ستاتے ہی رہیں گے اور کبھی باز نہیں آئیں گے، ہاتھ سے زبان سے ایذائیں دیتے رہیں گے ، تمہارے لیے ضروری ہے کہ ان سے ہوشیار رہو ان کی چکنی چیڑی باتوں سے دھوکا نہ کھاؤ بلکہ صبر واستقلال کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہو ، آخر میں کامیابی تمہارے ہی لیے مقدر ہے۔ آیت میں مسلمانوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین سے تم کو ہوشیار رہنا ہوگا وہ ہمیشہ تم کو ستاتے ہی رہیں گے اور کبھی باز نہیں آئیں گے، ہاتھ سے زبان سے ایذائیں دیتے رہیں گے ، تمہارے لیے ضروری ہے کہ ان سے ہوشیار رہو ان کی چکنی چیڑی باتوں سے دھوکا نہ کھاؤ بلکہ صبر واستقلال کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہو ، آخر میں کامیابی تمہارے ہی لیے مقدر ہے۔