‌صحيح البخاري - حدیث 4554

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ} صحيح حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، أنه سمع أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ يقول كان أبو طلحة أكثر أنصاري بالمدينة نخلا، وكان أحب أمواله إليه بيرحاء، وكانت مستقبلة المسجد، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخلها ويشرب من ماء فيها طيب، فلما أنزلت ‏{‏لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏}‏ قام أبو طلحة فقال يا رسول الله، إن الله يقول ‏{‏لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏}‏ وإن أحب أموالي إلى بيرحاء وإنها صدقة لله، أرجو برها وذخرها عند الله، فضعها يا رسول الله حيث أراك الله‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ بخ، ذلك مال رايح، ذلك مال رايح، وقد سمعت ما قلت، وإني أرى أن تجعلها في الأقربين ‏ ‏‏.‏ قال أبو طلحة أفعل يا رسول الله‏.‏ فقسمها أبو طلحة في أقاربه وبني عمه‏.‏ قال عبد الله بن يوسف وروح بن عبادة ‏ ‏ ذلك مال رابح ‏ ‏‏.‏ حدثني يحيى بن يحيى قال قرأت على مالك ‏ ‏ مال رايح ‏ ‏‏.

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4554

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت ( لن تنالوا البر حتٰی تنفقوا مما تحبون )کی تفسیر ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے ، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ مدینہ میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس انصار میں سب سے زیادہ کھجوروں کے درخت تھے اور ” بیرحاء“ کا باغ اپنی تمام جائیداد میں انہیں سب سے زیادہ عزیز تھا ۔ یہ باغ مسجد نبوی کے سامنے ہی تھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں تشریف لے جاتے اور اس کے میٹھے اور عمدہ پانی کو پیتے ، پھر جب آیت ” جب تک تم اپنی عزیز ترین چیزوں کو نہ خرچ کرو گے نیکی کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکو گے ۔ “ نازل ہوئی تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیایا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک تم اپنی عزیز چیزوں کو خرچ نہ کرو گے نیکی کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکوگے اور میرا سب سے زیادہ عزیز مال ” بیرحاء“ ہے اور یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے ۔ اللہ ہی سے میں اس کے ثواب واجر کی توقع رکھتا ہوں ، پس یا رسول اللہ ، جہاں آپ مناسب سمجھیں اسے استعمال کریں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، خوب یہ فانی ہی دولت تھی ، یہ فانی ہی دولت تھی ۔ جو کچھ تم نے کہا ہے وہ میں نے سن لیا اور میرا خیال ہے کہ تم اپنے عزیز واقرباءکو اسے دے دو ۔ حضرت ابو طلحۃ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ایسا ہی کروں گا ، یا رسول اللہ ! چنانچہ انہوں نے وہ باغ اپنے عزیزوں اور اپنے ناطہ والوں میں بانٹ دیا ۔ عبد اللہ بن یوسف اور روح بن عبادہ نے ” ذالک مال رابح “ ( ربح سے ) بیان کیا ہے ۔ یعنی یہ مال بہت نفع دینے والا ہے ۔ مجھ سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے امام مالک کے سامنے ” مال رائح “ ( رواح سے ) پڑھا تھا ۔
تشریح : تو نے اچھا کیا جو خیرات کر کے اس کو قائم کردیا ، عبداللہ بن یوسف کی روایت کو خود امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم ناقص کھجور اصحاب صفہ کو دیتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اچھا مال موجود ہوتے ہوئے راہ خدا میں ناقص مال دینااچھا نہیں ہے جیسا مال ہو ویسا ہی دینا چاہیے۔ تو نے اچھا کیا جو خیرات کر کے اس کو قائم کردیا ، عبداللہ بن یوسف کی روایت کو خود امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم ناقص کھجور اصحاب صفہ کو دیتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اچھا مال موجود ہوتے ہوئے راہ خدا میں ناقص مال دینااچھا نہیں ہے جیسا مال ہو ویسا ہی دینا چاہیے۔