كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {قُلْ يَاأَهْلَ الكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لاَ نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ} صحيح حدثني إبراهيم بن موسى، عن هشام، عن معمر،. وحدثني عبد الله بن محمد، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، قال أخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، قال حدثني ابن عباس، قال حدثني أبو سفيان، من فيه إلى في قال انطلقت في المدة التي كانت بيني وبين رسول الله صلى الله عليه وسلم ـ قال ـ فبينا أنا بالشأم إذ جيء بكتاب من النبي صلى الله عليه وسلم إلى هرقل قال وكان دحية الكلبي جاء به فدفعه إلى عظيم بصرى، فدفعه عظيم بصرى إلى ـ هرقل ـ قال فقال هرقل هل ها هنا أحد من قوم هذا الرجل الذي يزعم أنه نبي فقالوا نعم. قال فدعيت في نفر من قريش فدخلنا على هرقل، فأجلسنا بين يديه فقال أيكم أقرب نسبا من هذا الرجل الذي يزعم أنه نبي فقال أبو سفيان فقلت أنا. فأجلسوني بين يديه، وأجلسوا أصحابي خلفي، ثم دعا بترجمانه فقال قل لهم إني سائل هذا عن هذا الرجل الذي يزعم أنه نبي، فإن كذبني فكذبوه. قال أبو سفيان وايم الله، لولا أن يؤثروا على الكذب لكذبت. ثم قال لترجمانه سله كيف حسبه فيكم قال قلت هو فينا ذو حسب. قال فهل كان من آبائه ملك قال قلت لا. قال فهل كنتم تتهمونه بالكذب قبل أن يقول ما قال قلت لا. قال أيتبعه أشراف الناس أم ضعفاؤهم قال قلت بل ضعفاؤهم. قال يزيدون أو ينقصون قال قلت لا بل يزيدون. قال هل يرتد أحد منهم عن دينه، بعد أن يدخل فيه، سخطة له قال قلت لا. قال فهل قاتلتموه قال قلت نعم. قال فكيف كان قتالكم إياه قال قلت تكون الحرب بيننا وبينه سجالا، يصيب منا ونصيب منه. قال فهل يغدر قال قلت لا ونحن منه في هذه المدة لا ندري ما هو صانع فيها. قال والله ما أمكنني من كلمة أدخل فيها شيئا غير هذه. قال فهل قال هذا القول أحد قبله قلت لا. ثم قال لترجمانه قل له إني سألتك عن حسبه فيكم، فزعمت أنه فيكم ذو حسب، وكذلك الرسل تبعث في أحساب قومها، وسألتك هل كان في آبائه ملك فزعمت أن لا فقلت لو كان من آبائه ملك قلت رجل يطلب ملك آبائه، وسألتك عن أتباعه أضعفاؤهم أم أشرافهم فقلت بل ضعفاؤهم، وهم أتباع الرسل، وسألتك هل كنتم تتهمونه بالكذب قبل أن يقول ما قال فزعمت أن لا، فعرفت أنه لم يكن ليدع الكذب على الناس ثم يذهب فيكذب على الله، وسألتك هل يرتد أحد منهم عن دينه بعد أن يدخل فيه سخطة له فزعمت أن لا، وكذلك الإيمان إذا خالط بشاشة القلوب، وسألتك هل يزيدون أم ينقصون فزعمت أنهم يزيدون، وكذلك الإيمان حتى يتم، وسألتك هل قاتلتموه فزعمت أنكم قاتلتموه فتكون الحرب بينكم وبينه سجالا، ينال منكم وتنالون منه، وكذلك الرسل تبتلى، ثم تكون لهم العاقبة، وسألتك هل يغدر فزعمت أنه لا يغدر، وكذلك الرسل لا تغدر، وسألتك هل قال أحد هذا القول قبله فزعمت أن لا، فقلت لو كان قال هذا القول أحد قبله قلت رجل ائتم بقول قيل قبله. قال ثم قال بم يأمركم قال قلت يأمرنا بالصلاة والزكاة والصلة والعفاف. قال إن يك ما تقول فيه حقا فإنه نبي، وقد كنت أعلم أنه خارج، ولم أك أظنه منكم، ولو أني أعلم أني أخلص إليه لأحببت لقاءه، ولو كنت عنده لغسلت عن قدميه، وليبلغن ملكه ما تحت قدمى. قال ثم دعا بكتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقرأه، فإذا فيه بسم الله الرحمن الرحيم من محمد رسول الله، إلى هرقل عظيم الروم، سلام على من اتبع الهدى، أما بعد، فإني أدعوك بدعاية الإسلام، أسلم تسلم، وأسلم يؤتك الله أجرك مرتين، فإن توليت فإن عليك إثم الأريسيين، و{يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم أن لا نعبد إلا الله} إلى قوله {اشهدوا بأنا مسلمون} . فلما فرغ من قراءة الكتاب ارتفعت الأصوات عنده، وكثر اللغط، وأمر بنا فأخرجنا قال فقلت لأصحابي حين خرجنا لقد أمر أمر ابن أبي كبشة، أنه ليخافه ملك بني الأصفر فما زلت موقنا بأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه سيظهر حتى أدخل الله على الإسلام. قال الزهري فدعا هرقل عظماء الروم فجمعهم في دار له فقال يا معشر الروم، هل لكم في الفلاح والرشد آخر الأبد، وأن يثبت لكم ملككم قال فحاصوا حيصة حمر الوحش إلى الأبواب، فوجدوها قد غلقت، فقال على بهم. فدعا بهم فقال إني إنما اختبرت شدتكم على دينكم، فقد رأيت منكم الذي أحببت. فسجدوا له ورضوا عنه.
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت ( قل یا اھل الکتاب تعالوا الیٰ کلمۃ ) کی تفسیر
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام نے ، ان سے معمر نے ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ اور مجھ سے عبد اللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ، کہاہم کو عبدالرزاق نے خبر دی ، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ، ان سے امام زہری نے بیان کیا ، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی ، کہاکہ مجھ سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ، کہاکہ مجھ سے حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے منہ در منہ بیان کیا ، انہوں نے بتلایا کہ جس مدت میں میرے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صلح ( حدیبیہ کے معاہدہ کے مطابق ) تھی ، میں ( سفر تجارت پر شام میں ) گیا ہوا تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ہرقل کے پاس پہنچا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ حضرت دحیہ الکلبی رضی اللہ عنہ وہ خط لائے تھے اور عظیم بصریٰ کے حوالے کر دیا تھااور ہرقل کے پاس اسی سے پہنچا تھا ۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہرقل نے پوچھا کیا ہمارے حدود سلطنت میں اس شخص کی قوم کے بھی کچھ لوگ ہیں جو نبی ہونے کا دعویدار ہے ؟ درباریوں نے بتایا کہ جی ہاں موجود ہیں ۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر مجھے قریش کے چند دوسرے آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا ۔ ہم ہرقل کے دربار میں داخل ہوئے اور اس کے سامنے ہمیں بٹھا دیا گیا ۔ اس نے پوچھا ، تم لوگوں میں اس شخص سے زیادہ قریبی کون ہے جونبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ؟ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا کہ میں زیادہ قریب ہوں ۔ اب درباریوں نے مجھے بادشاہ کے بالکل قریب بٹھادیا اور میرے دوسرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھادیا ۔ اس کے بعد ترجمان کو بلایا اور اس سے ہرقل نے کہا کہ انہیں بتاؤ کہ میں اس شخص کے بارے میں تم سے کچھ سوالات کروںگا ، جو نبی ہو نے کا دعویدار ہے ، اگر یہ ( یعنی ابو سفیان رضی اللہ عنہ ) جھوٹ بولے تو تم اس کے جھوٹ کو ظاہر کردینا ۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا بیان تھا کہ اللہ کی قسم ! اگر مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ میرے ساتھی کہیںمیرے متعلق جھوٹ بولنا نقل نہ کردیںتو میں ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ) ضرورجھوٹ بولتا ۔ پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ جس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ اپنے نسب میں کیسے ہیں ؟ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ان کا نسب ہم میں بہت ہی عزت والا ہے ۔ اس نے پوچھا کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے ؟ بیان کیا کہ میں نے کہا ، نہیں ۔ اس نے پوچھا ، تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی ان پر جھوٹ کی تہمت لگائی تھی ؟ میں نے کہا نہیں ۔ پوچھا ان کی پیروی معزز لوگ زیادہ کرتے ہیں یا کمزور ؟ میں نے کہا کہ قوم کے کمزور لوگ زیادہ ہیں ۔ اس نے پوچھا ، ان کے ماننے والوں میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یا کمی ؟ میںنے کہا کہ نہیں بلکہ زیادتی ہوتی رہتی ہے ۔ پوچھا کبھی ایسا بھی کوئی واقعہ پیش آیا ہے کہ کوئی شخص ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بد گمان ہو کر ان سے پھر گیا ہو ؟ میں نے کہا ایسا بھی کبھی نہیں ہوا ۔ اس نے پوچھا ، تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں ۔ اس نے پو چھا ، تمہاری ان کے ساتھ جنگ کا کیا نتیجہ رہا ؟ میں نے کہا کہ ہماری جنگ کی مثال ایک ڈول کی ہے کہ کبھی ان کے ہاتھ میں اور کبھی ہمارے ہاتھ میں ۔ اس نے پوچھا ، کبھی انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی دھوکا بھی کیا ؟ میں نے کہا کہ اب تک تو نہیں کیا ، لیکن آج کل بھی ہمارا ان سے ایک معاہدہ چل رہاہے ، نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں ان کا طرز عمل کیا رہے گا ۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم ! اس جملہ کے سوا اور کوئی بات میں اس پوری گفتگو میں اپنی طرف سے نہیں ملا سکا ، پھر اس نے پوچھا اس سے پہلے بھی یہ دعویٰ تمہارے یہاں کسی نے کیا تھا ؟ میں نے کہا کہ نہیں ۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا ، اس سے کہو کہ میں نے تم سے نبی کے نسب کے بارے میں پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ تم لوگوں میں باعزت اور اونچے نسب کے سمجھے جاتے ہیں ، انبیاءکا بھی یہی حال ہے ۔ ان کی بعثت ہمیشہ قوم کے صاحب حسب ونسب خاندان میں ہوتی ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا کوئی ان کے باپ دادوں میں بادشاہ گزرا ہے ، تو تم نے اس کا انکار کیا میں اس سے اس فیصلہ پر پہنچا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ اپنی خاندانی سلطنت کو اس طرح واپس لینا چاہتے ہوں اور میں نے تم سے ان کی اتباع کرنے والوں کے متعلق پوچھا کہ آیا وہ قوم کے کمزور لوگ ہیں یا اشراف ، تو تم نے بتایا کہ کمزور لوگ ان کی پیروی کرنے والوں میں ( زیادہ ) ہیں ۔ یہی طبقہ ہمیشہ سے انبیاءکی اتباع کرتا رہا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے دعوی نبوت سے پہلے ان پر جھوٹ کا کبھی شبہ کیا تھا ، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا ۔ میں نے اس سے یہ سمجھا کہ جس شخص نے لوگوں کے معاملہ میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو ، وہ اللہ کے معاملے میں کس طرح جھوٹ بول دے گا اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر کوئی شخص ان کے دین سے کبھی پھر ابھی ہے ، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا ۔ ایمان کا یہی اثر ہوتا ہے جب وہ دل کی گہرائیوں میں اتر جائے ۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا کم ہوتی ہے ، تو تم نے بتایا کہ ان میں اضافہ ہی ہوتا ہے ، ایمان کا یہی معاملہ ہے ، یہاں تک کہ وہ کمال کو پہنچ جائے ۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے ؟ تو تم نے بتایا کہ جنگ کی ہے اور تمہارے درمیان لڑائی کا نتیجہ ایسا رہا ہے کہ کبھی تمہارے حق میں اور کبھی ان کے حق میں ۔ انبیاءکا بھی یہی معاملہ ہے ، انہیں آزمائش میں ڈالا جاتا ہے اور آخرانجام انہیں کے حق میں ہوتا ہے اور میں نے تم سے پو چھا تھا کہ اس نے تمہارے ساتھ کبھی خلاف عہد بھی معاملہ کیا ہے تو تم نے اس سے بھی انکار کیا ۔ انبیاءکبھی عہد کے خلاف نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا تھاکہ کیا تمہارے یہاں اس طرح کا دعویٰ پہلے بھی کسی نے کیا تھا تو تم نے کہا کہ پہلے کسی نے اس طرح کا دعویٰ نہیں کیا ، میں اس سے اس فیصلے پر پہنچا کہ اگر کسی نے تمہارے یہاں اس سے پہلے اس طرح کا دعویٰ کیا ہوتا تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہ بھی اسی کی نقل کر رہے ہیں ۔ بیان کیا کہ پھر ہرقل نے پوچھاوہ تمہیں کن چیزوں کا حکم دیتے ہیں ؟ میں نے کہا نماز ، زکوٰۃ ، صلہ رحمی اور پاکدامنی کا ۔ آخر اس نے کہا کہ جو کچھ تم نے بتایا ہے اگر وہ صحیح ہے تو یقینا وہ نبی ہیں اس کا علم تو مجھے بھی تھا کہ ان کی نبوت کا زمانہ قریب ہے لیکن یہ خیال نہ تھا کہ وہ تمہاری قوم میں ہوں گے ۔ اگر مجھے ان تک پہنچ سکنے کا یقین ہوتا تو میں ضرور ان سے ملاقات کرتا اور اگر میں ان کی خدمت میں ہوتا تو ان کے قدموں کو دھوتا اور ان کی حکو مت میرے ان دو قدموں تک پہنچ کر رہے گی ۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اسے پڑھا ، اس میں یہ لکھا ہوا تھا ، اللہ ، رحمن ، رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عظیم روم ہرقل کی طرف ، سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی اتباع کرے ۔ امابعد ! میں تمہیں اسلام کی طرف بلاتا ہوں ، اسلام لاؤ تو سلامتی پاؤگے اور اسلام لاؤ تو اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا ۔ لیکن تم نے اگر منہ موڑا تو تمہاری رعایا ( کے کفر کا بار بھی سب ) تم پر ہوگااور ” اے کتاب والو ! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہم میں اور تم میں برابر ہے ، وہ یہ کہ ہم سوائے اللہ کے اور کسی کی عبادت نہ کریں “ اللہ تعالیٰ کے فرمان (( اشھدوا بانا مسلمون )) تک جب ہرقل خط پڑھ چکا تو دربار میں بڑا شور برپا ہوگیا اور پھر ہمیں دربار سے باہر کردیاگیا ۔ باہر آکرمیں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ کا معاملہ تو اب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ملک بنی الاصفر ( ہرقل ) بھی ان سے ڈر نے لگا ۔ اس واقعہ کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم غالب آکر رہیں گے اور آخر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی روشنی میرے دل میں بھی ڈال ہی دی ۔ زہری نے کہا کہ پھر ہرقل نے روم کے سرداروں کو بلاکر ایک خاص کمرے میں جمع کیا ، پھر ان سے کہا اے رومیو ! کیا تم ہمیشہ کے لیے اپنی فلاح اور بھلائی چاہتے ہو اور یہ کہ تمہارا ملک تمہارے ہی ہاتھ میں رہے ( اگر تم ایسا چاہتے ہو تو اسلام قبول کرلو ) راوی نے بیان کیا کہ یہ سنتے ہی وہ سب وحشی جانوروں کی طرح دروازے کی طرف بھاگے ، دیکھا تو دروازہ بند تھا ، پھر ہرقل نے سب کو اپنے پاس بلایا کہ انہیں میرے پاس لاؤ اور ان سے کہا کہ میں نے تو تمہیں آزمایا تھا کہ تم اپنے دین میں کتنے پختہ ہو ، اب میں نے اس چیز کا مشاہدہ کر لیا جو مجھے پسند تھی ۔ چنانچہ سب درباریوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے راضی ہو گئے ۔
تشریح :
یہ طویل حدیث یہاں صرف اس لیے لائی گئی ہے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہ مبارک کا ذکر ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب کو آیت یٰاھل الکتاب تعالوا الیٰ کلمۃ ( آل عمران: 64 ) کے ذریعہ دعوت اسلام پیش کی تھی۔ مگر افسوس کہ ہرقل حقیقت جان کر بھی اسلام نہ لا سکا اور قومی عار پر اس نے نارِدوزخ کو اختیار کیا۔ بیشتر دنیا داروں کا یہی حال رہا ہے کہ وہ دنیا وی عار کی وجہ سے حق سے دور رہے ہیں یا باوجودیکہ دل سے حق کو حق جانتےہیں۔ اس طویل حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج ہوتا ہے ، جس کے لیے فتح الباری کا مطالعہ ضروری ہے۔ ابوکبشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انا حلیمہ دائی کے شوہرکا نام تھا۔ اس لیے قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوکبشہ سے نسبت دینے لگے تھے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رضاعی باپ تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ہرقل مسلمان نہیں ہوا تھا۔ گو دل سے تصدیق کرتا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا کہ وہ نصرانی ہے، اسلام قبول کرنے کے لیے ظاہر وباطن ہر دو طرح سے مسلمان ہونا ضروری ہے کلمۃ سوآءکے بارے میں حضرت حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ ان المراد بالکلمۃ لاالہ الا اللہ وعلی ذلک یدل سیاق الایۃ الذی تضمنہ قولہ ان لا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ فان جمیع ذلک داخل تحت کلمۃ وھی لاالہ الا اللہ والکلمۃ علیٰ ھذا بمعنی الکلام وذلک سائغ فی اللغۃ فتطلق الکلمۃ علی الکلمات لان بعضھا ارتبط ببعض فصارت فی قوۃ الکلمۃ الواحدۃ بخلاف اصطلاح النحاۃ فی تفریقھم بین الکلمۃ والکلام ( فتح الباری ) خلاصہ یہی ہے کہ کلمہ سواءسے مراد لاالہ الا اللہ ہے۔
یہ طویل حدیث یہاں صرف اس لیے لائی گئی ہے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہ مبارک کا ذکر ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب کو آیت یٰاھل الکتاب تعالوا الیٰ کلمۃ ( آل عمران: 64 ) کے ذریعہ دعوت اسلام پیش کی تھی۔ مگر افسوس کہ ہرقل حقیقت جان کر بھی اسلام نہ لا سکا اور قومی عار پر اس نے نارِدوزخ کو اختیار کیا۔ بیشتر دنیا داروں کا یہی حال رہا ہے کہ وہ دنیا وی عار کی وجہ سے حق سے دور رہے ہیں یا باوجودیکہ دل سے حق کو حق جانتےہیں۔ اس طویل حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج ہوتا ہے ، جس کے لیے فتح الباری کا مطالعہ ضروری ہے۔ ابوکبشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انا حلیمہ دائی کے شوہرکا نام تھا۔ اس لیے قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوکبشہ سے نسبت دینے لگے تھے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رضاعی باپ تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ہرقل مسلمان نہیں ہوا تھا۔ گو دل سے تصدیق کرتا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا کہ وہ نصرانی ہے، اسلام قبول کرنے کے لیے ظاہر وباطن ہر دو طرح سے مسلمان ہونا ضروری ہے کلمۃ سوآءکے بارے میں حضرت حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ ان المراد بالکلمۃ لاالہ الا اللہ وعلی ذلک یدل سیاق الایۃ الذی تضمنہ قولہ ان لا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ فان جمیع ذلک داخل تحت کلمۃ وھی لاالہ الا اللہ والکلمۃ علیٰ ھذا بمعنی الکلام وذلک سائغ فی اللغۃ فتطلق الکلمۃ علی الکلمات لان بعضھا ارتبط ببعض فصارت فی قوۃ الکلمۃ الواحدۃ بخلاف اصطلاح النحاۃ فی تفریقھم بین الکلمۃ والکلام ( فتح الباری ) خلاصہ یہی ہے کہ کلمہ سواءسے مراد لاالہ الا اللہ ہے۔