كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ} صحيح حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا يزيد بن إبراهيم التستري، عن ابن أبي مليكة، عن القاسم بن محمد، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت تلا رسول الله صلى الله عليه وسلم هذه الآية {هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات هن أم الكتاب وأخر متشابهات فأما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغاء الفتنة وابتغاء تأويله} إلى قوله {أولو الألباب} قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا رأيت الذين يتبعون ما تشابه منه، فأولئك الذين سمى الله، فاحذروهم .
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (منہ آیات محکمات ) کی تفسیر
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا ، ہم سے یزید بن ابراہیم تستری نے بیان کیا ، ان سے ابن ابی ملیکہ نے ، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی (( ھو الذی انزل علیک الکتاب )) یعنی وہ وہی خدا ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری ہے ، اس میں محکم آیتیں ہیں اور وہی کتاب کا اصل دارو مدار ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ ہیں ۔ سو وہ لوگ جن کے دلوں میں چڑ پن ہے ۔ وہ اس کے اسی حصے کے پیچھے لگ جاتے ہیں جو متشابہ ہیں ، فتنے کی تلاش میں اور اس کی غلط تاویل کی تلاش میں آخر آیت (( اولوالا لباب )) تک ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہوں تو یاد رکھو کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ( آیت بالا میں ) ذکر فرمایا ہے ۔ اس لیے ان سے بچتے رہو ۔
تشریح :
پہلے یہودی لوگ متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے، انہوں نے اور کل سورتوں کے حرفوں سے اس آیت کی مدت نکالی پھر خارجی لوگ پیدا ہوئے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان لوگوں سے خارجیوں کو مراد لیا ہے اور کہا کہ پہلی بدعت جو اسلام میں پیدا ہوئی وہ فتنہ خوارج ہے۔ صفات باری سے متعلق بھی جس قدر آیات ہیں ان کو ان کے ظاہری معانی پر محمول کرنا اور تاویل نہ کرنا ان کی حقیقت اللہ کے حوالہ کردینا یہی سلف صالح کا طریقہ ہے اور ان کی تاویلات کے پیچھے پڑنا اہل زیغ کا طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سلف صالحین کے راستے پر چلائے آمین، بعض سورتوں کے شروع میں جو الفاظ مقطعات ہیں ان کو بھی متشا بہات میں شمار کیا گیا ہے۔
پہلے یہودی لوگ متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے، انہوں نے اور کل سورتوں کے حرفوں سے اس آیت کی مدت نکالی پھر خارجی لوگ پیدا ہوئے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان لوگوں سے خارجیوں کو مراد لیا ہے اور کہا کہ پہلی بدعت جو اسلام میں پیدا ہوئی وہ فتنہ خوارج ہے۔ صفات باری سے متعلق بھی جس قدر آیات ہیں ان کو ان کے ظاہری معانی پر محمول کرنا اور تاویل نہ کرنا ان کی حقیقت اللہ کے حوالہ کردینا یہی سلف صالح کا طریقہ ہے اور ان کی تاویلات کے پیچھے پڑنا اہل زیغ کا طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سلف صالحین کے راستے پر چلائے آمین، بعض سورتوں کے شروع میں جو الفاظ مقطعات ہیں ان کو بھی متشا بہات میں شمار کیا گیا ہے۔