‌صحيح البخاري - حدیث 4538

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ إِلَى قَوْلِهِ: {لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ} صحيح حدثنا إبراهيم، أخبرنا هشام، عن ابن جريج، سمعت عبد الله بن أبي مليكة، يحدث عن ابن عباس،‏.‏ قال وسمعت أخاه أبا بكر بن أبي مليكة، يحدث عن عبيد بن عمير، قال قال عمر ـ رضى الله عنه ـ يوما لأصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فيم ترون هذه الآية نزلت ‏{‏أيود أحدكم أن تكون له جنة‏}‏ قالوا الله أعلم‏.‏ فغضب عمر فقال قولوا نعلم أو لا نعلم‏.‏ فقال ابن عباس في نفسي منها شىء يا أمير المؤمنين‏.‏ قال عمر يا ابن أخي قل ولا تحقر نفسك‏.‏ قال ابن عباس ضربت مثلا لعمل‏.‏ قال عمر أى عمل قال ابن عباس لعمل‏.‏ قال عمر لرجل غني يعمل بطاعة الله عز وجل، ثم بعث الله له الشيطان فعمل بالمعاصي حتى أغرق أعماله‏.‏ ‏{‏فصرهن‏}‏ قطعهن‏.‏

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4538

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت ( ایود احدکم ان تکون لہ جنۃ ) کی تفسیر ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی ، انہیں ابن جریج نے ، انہوں نے عبداللہ بن ابی ملیکہ سے سنا ، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے بیان کرتے تھے ، ابن جریج نے کہا اور میں نے ابن ابی ملیکہ کے بھائی ابو بکر بن ابی ملیکہ سے بھی سنا ، وہ عبید بن عمیر سے روایت کرتے تھے کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے دریافت کیا کہ آپ لوگ جانتے ہو یہ آیت کس سلسلے میں نازل ہوئی ہے ۔ ” کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کاایک باغ ہو ۔ “ سب نے کہا کہ اللہ زیادہ جاننے والا ہے ۔ یہ سن کرحضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت خفا ہو گئے اور کہا ، صاف جواب دیں کہ آپ لوگوں کو اس سلسلے میں کچھ معلوم ہے یا نہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا امیر المؤمنین ! میرے دل میں ایک بات آتی ہے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، بیٹے ! تمہیں کہو اور اپنے کو حقیر نہ سمجھو ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ اس میں عمل کی مثال بیان کی گئی ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا ، کیسے عمل کی ؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ عمل کی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ ایک مالدار شخص کی مثال ہے جو اللہ کی اطاعت میں نیک عمل کرتا رہتا ہے ۔ پھر اللہ شیطان کو اس پر غالب کردیتاہے ، وہ گناہوں میں مصروف ہوجاتاہے اور اس کے اگلے نیک اعمال سب غارت ہوجاتے ہیں ۔
تشریح : دوسری روایت میں یوں ہے کہ ساری عمر تو نیک عمل کرتا رہتا ہے جب آخر عمر ہوتی ہے اور نیک عملوں کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے، اس وقت برے کام کرنے لگتا ہے اور اس کی ساری اگلی نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں۔ ( فتح الباری ) دوسری روایت میں یوں ہے کہ ساری عمر تو نیک عمل کرتا رہتا ہے جب آخر عمر ہوتی ہے اور نیک عملوں کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے، اس وقت برے کام کرنے لگتا ہے اور اس کی ساری اگلی نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں۔ ( فتح الباری )