كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ} «أَيْ مُطِيعِينَ» صحيح حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن إسماعيل بن أبي خالد، عن الحارث بن شبيل، عن أبي عمرو الشيباني، عن زيد بن أرقم، قال كنا نتكلم في الصلاة يكلم أحدنا أخاه في حاجته حتى نزلت هذه الآية {حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين} فأمرنا بالسكوت.
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (وقوموا للہ قانتین ) کی تفسیر
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، کہاہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا ، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے ، ان سے حارث بن شبل نے ، ان سے ابو عمرو شیبانی نے اور ان سے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پہلے ہم نماز پڑھتے ہوئے بات بھی کرلیا کرتے تھے ، کوئی بھی شخص اپنے دوسرے بھائی سے اپنی کسی ضرورت کے لیے بات کر لیتا تھا ۔ یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی ۔ ” سب ہی نمازوں کی پابندی رکھو اور خاص طور پر بیچ والی نماز کی اور اللہ کے سامنے فرماں برداروں کی طرح کھڑے ہوا کرو ۔ “ اس آیت کے ذریعہ ہمیں نماز میں چپ رہنے کا حکم دیا گیا ۔
تشریح :
لفظ قانتین سے خاموش رہنے والے فرمانبردار مراد ہیں۔ مجاہد نے کہا قنوت یہ ہےکہ خشوع خضوع طول قیام کے ساتھ ادب سے نماز پڑھے۔ نگاہ نیچی رکھے، نماز دربار الٰہی میں عاجز انہ طور پر ظاہر وباطن کو جھکادینے کا نام ہے۔ آیت میں قنوت سے نماز میں خاموش رہنا مراد ہے۔ ( فتح الباری ) حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عمرو ہے۔ یہ انصاری خزرجی ہیں۔ کوفہ میں سکو نت اختیار کی تھی۔ 66 ھ میں وفات پائی ، رضی اللہ عنہ۔
لفظ قانتین سے خاموش رہنے والے فرمانبردار مراد ہیں۔ مجاہد نے کہا قنوت یہ ہےکہ خشوع خضوع طول قیام کے ساتھ ادب سے نماز پڑھے۔ نگاہ نیچی رکھے، نماز دربار الٰہی میں عاجز انہ طور پر ظاہر وباطن کو جھکادینے کا نام ہے۔ آیت میں قنوت سے نماز میں خاموش رہنا مراد ہے۔ ( فتح الباری ) حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عمرو ہے۔ یہ انصاری خزرجی ہیں۔ کوفہ میں سکو نت اختیار کی تھی۔ 66 ھ میں وفات پائی ، رضی اللہ عنہ۔