كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا ]الخ صحيح حدثنا إسحاق، حدثنا روح، حدثنا شبل، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد، {والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا} قال كانت هذه العدة تعتد عند أهل زوجها واجب، فأنزل الله {والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا وصية لأزواجهم متاعا إلى الحول غير إخراج فإن خرجن فلا جناح عليكم فيما فعلن في أنفسهن من معروف} قال جعل الله لها تمام السنة سبعة أشهر وعشرين ليلة وصية، إن شاءت سكنت في وصيتها، وإن شاءت خرجت، وهو قول الله تعالى {غير إخراج فإن خرجن فلا جناح عليكم} فالعدة كما هي واجب عليها. زعم ذلك عن مجاهد. وقال عطاء قال ابن عباس نسخت هذه الآية عدتها عند أهلها، فتعتد حيث شاءت، وهو قول الله تعالى {غير إخراج}. قال عطاء إن شاءت اعتدت عند أهله وسكنت في وصيتها، وإن شاءت خرجت لقول الله تعالى {فلا جناح عليكم فيما فعلن}. قال عطاء ثم جاء الميراث فنسخ السكنى فتعتد حيث شاءت، ولا سكنى لها. وعن محمد بن يوسف حدثنا ورقاء عن ابن أبي نجيح عن مجاهد بهذا. وعن ابن أبي نجيح عن عطاء عن ابن عباس قال نسخت هذه الآية عدتها في أهلها، فتعتد حيث شاءت لقول الله {غير إخراج} نحوه.
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت (والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا )الایۃکی تفسیر ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے شبل بن عباد نے بیان کیا ، ان سے ابن ابی نجیح نے اور ان سے مجاہد نے آیت ” اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں ۔ “ کے بارے میں ( زمانہ جاہلیت کی طرح ) کہا کہ عدت ( یعنی چار مہینے دس دن کی ) تھی جو شوہر کے گھر عورت کو گزارنی ضروری تھی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ” اور جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں ان کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے حق میں نفع اٹھانے کی وصیت ( کر جائیں ) کہ وہ ایک سال تک گھر سے نہ نکالی جائیں ، لیکن اگر وہ ( خود ) نکل جائیں تو کوئی گناہ تم پر نہیں ۔ اگر وہ دستور کے موافق اپنے لیے کوئی کام کریں “ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے لیے سات مہینے اور بیس دن وصیت کے قرار دیئے کہ اگر وہ اس مدت میں چاہے تو اپنے لیے وصیت کے مطابق ( شوہر کے گھر میں ہی ) ٹھہرے اور اگر چاہے تو کہیں اور چلی جائے کہ اگر ایسی عورت کہیں اور چلی جائے تو تمہارے حق میں کوئی گناہ نہیں ۔ پس عدت کے ایام تو وہی ہیں جنہیں گزارنا اس پر ضروری ہے ( یعنی چار مہینے دس دن ) شبل نے کہاابن ابی نجیح نے مجاہد سے ایسا ہی نقل کیا ہے اور عطا بن ابی رباح نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ، اس آیت نے اس رسم کو منسوخ کردیا کہ عورت اپنے خاوند کے گھر والوں کے پاس عدت گزارے ۔ اس آیت کی رو سے عورت کو اختیار ملا جہاں چاہے وہاں عدت گزارے اور اللہ پاک کے قول غیر اخراج کا یہی مطلب ہے ۔ عطا نے کہا ، عورت اگر چاہے تو اپنے خاوند کے گھر والوں میں عدت گزارے اور خاوند کی وصیت کے موافق اسی کے گھر میں رہے اور اگر چاہے تو وہاں سے نکل جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر وہ نکل جائیں تو دستو ر کے موافق اپنے حق میں جو بات کریں اس میں کوئی گناہ تم پر نہ ہوگا ۔ عطا ءنے کہا کہ پھر میراث کا حکم نازل ہوا جو سورۃ نساءمیں ہے اور اس نے ( عورت کے لیے ) گھر میں رکھنے کے حکم کو منسوخ قرار دیا ۔ اب عورت جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے ۔ اسے مکان کا خرچہ دینا ضروری نہیں اور محمد بن یوسف نے روایت کیا ، ان سے ورقاء بن عمرو نے بیان کیا ، ان سے ابن ابی نجیح نے اور ان سے مجاہد نے ، یہی قول بیان کیا اور فرزندان ابن ابی نجیح سے نقل کیا ، ان سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس آیت نے صرف شوہر کے گھر میں عدت کے حکم کو منسوخ قرار دیا ہے ۔ اب وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ” غیر اخراج “ وغیرہ سے ثابت ہے ۔