كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ} صحيح حدثني محمد بن أبي بكر، حدثنا فضيل بن سليمان، حدثنا موسى بن عقبة، أخبرني كريب، عن ابن عباس، قال يطوف الرجل بالبيت ما كان حلالا حتى يهل بالحج، فإذا ركب إلى عرفة فمن تيسر له هدية من الإبل أو البقر أو الغنم، ما تيسر له من ذلك أى ذلك شاء، غير إن لم يتيسر له فعليه ثلاثة أيام في الحج، وذلك قبل يوم عرفة، فإن كان آخر يوم من الأيام الثلاثة يوم عرفة فلا جناح عليه، ثم لينطلق حتى يقف بعرفات من صلاة العصر إلى أن يكون الظلام، ثم ليدفعوا من عرفات إذا أفاضوا منها حتى يبلغوا جمعا الذي يتبرر فيه، ثم ليذكروا الله كثيرا، أو أكثروا التكبير والتهليل قبل أن تصبحوا ثم أفيضوا، فإن الناس كانوا يفيضون، وقال الله تعالى {ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس واستغفروا الله إن الله غفور رحيم} حتى ترموا الجمرة.
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت ( ثم افیضوا من حیث افاض الناس )کی تفسیر مجھ سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا ، انھوں نے کہاہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا ، انھوں نے کہا مجھ کو کریب نے خبر دی اور ان سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیاکہ ( جو کوئی تمتع کرے عمرہ کرکے احرام کھول ڈالے وہ ) جب تک حج کا احرام نہ باندھے بیت اللہ کا نفل طواف کرتا رہے ۔ جب حج کا احرام باندھے اور عرفات جانے کو سوار ہو تو حج کے بعد جو قربانی ہوسکے وہ کرے ، اونٹ ہو یا گائے یا بکری ۔ ان تینوں میں سے جو ہو سکے اگر قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے عرفہ کے دن سے پہلے اگر آخری روزہ عرفہ کے دن آجائے تب بھی کوئی قباحت نہیں شہر مکہ سے چل کر عرفات کو جائے وہاں عصر کی نماز سے رات کی تاریکی ہونے تک ٹھہرے ، پھر عرفات سے اس وقت لوٹے جب دوسرے لوگ لوٹیں اورسب لوگوں کے ساتھ رات مزدلفہ میں گزارے اور اللہ کی یاداور تکبیر اور تہلیل بہت کرتا رہے صبح ہونے تک ۔ صبح کولوگوں کے ساتھ مزدلفہ سے منیٰ کو لوٹے جیسے اللہ نے فرمایا (( ثم افیضوا من حیث افاض الناس )) الآیۃ یعنی کنکریاں مارنے تک اسی طرح اللہ کی یاد اورتکبیر و تہلیل کرتے رہو ۔