‌صحيح البخاري - حدیث 4520

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ} صحيح حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا محمد بن خازم، حدثنا هشام، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ كانت قريش ومن دان دينها يقفون بالمزدلفة، وكانوا يسمون الحمس، وكان سائر العرب يقفون بعرفات، فلما جاء الإسلام أمر الله نبيه صلى الله عليه وسلم أن يأتي عرفات، ثم يقف بها ثم يفيض منها، فذلك قوله تعالى ‏{‏ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس‏}‏

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4520

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت ( ثم افیضوا من حیث افاض الناس )کی تفسیر ہم سے علی بن عبدا للہ نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے محمد بن حازم نے بیان کیا ، ان سے ہشام نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ قریش اور ان کے طریقے کی پیروی کرنے والے عرب ( حج کے لیے ) مزدلفہ میں ہی وقوف کیا کرتے تھے ، اس کا نام انہوں ” الحمس “ رکھا تھااور باقی عرب عرفات کے میدان میں وقوف کرتے تھے ۔ پھر جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ عرفات میں آئیں اور وہیں وقوف کریں اور پھر وہاں سے مزدلفہ آئیں ۔ آیت ثم افیضوا من حیث افاض الناس سے یہی مراد ہے ۔
تشریح : قریش کو بھی عرفات میں وقوف کا حکم دیا گیا۔ الحمس کے معنی دین میں پکے اور سخت کے ہیں۔ ان لوگوں کا خیا ل یہ تھا کہ ہم قریش حرم کے خادم ہیں۔ حرم کی سرحد سے ہم باہر نہیں جاتے۔ عرفات حل میں ہے یعنی حرم کی سرحد سے باہر ہے۔ قریش کے اس غلط خیال کی اصلاح کی گئی اور سب کے لیے عرفات ہی کا وقوف واجب قرار پایا۔ قریش کو بھی عرفات میں وقوف کا حکم دیا گیا۔ الحمس کے معنی دین میں پکے اور سخت کے ہیں۔ ان لوگوں کا خیا ل یہ تھا کہ ہم قریش حرم کے خادم ہیں۔ حرم کی سرحد سے ہم باہر نہیں جاتے۔ عرفات حل میں ہے یعنی حرم کی سرحد سے باہر ہے۔ قریش کے اس غلط خیال کی اصلاح کی گئی اور سب کے لیے عرفات ہی کا وقوف واجب قرار پایا۔