كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ} صحيح حدثني محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، حدثنا هشام، قال أخبرني أبي، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كان يوم عاشوراء تصومه قريش في الجاهلية، وكان النبي صلى الله عليه وسلم يصومه، فلما قدم المدينة صامه وأمر بصيامه، فلما نزل رمضان كان رمضان الفريضة، وترك عاشوراء، فكان من شاء صامه، ومن شاء لم يصمه.
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (( یٰایھا الذین اٰٰمنوا کتب علیکم الصیام )) کی تفسیر
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ، کہاہم سے ہشام نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی اوران سے عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن قریش زمانہ جاہلیت میں روزے رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے ۔ جب آپ مدینہ تشریف لائے تو یہاں بھی آپ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کے رکھنے کاحکم دیا ، لیکن جب رمضان کے روزوںکا حکم نازل ہو اتو رمضان کے روزے فرض ہو گئے اور عاشوراء کے روزہ ( کی فرضیت ) باقی نہیں رہی ۔ اب جس کاجی چاہے اس دن بھی روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے ۔
تشریح :
یوم عاشوراءکے روزہ کی فضیلت اور استحباب اب بھی باقی ہے۔ پہلے اس کا وجوب تھا جو رمضان کے روزوں کی فرضیت سے منسوخ ہوگیا۔
یوم عاشوراءکے روزہ کی فضیلت اور استحباب اب بھی باقی ہے۔ پہلے اس کا وجوب تھا جو رمضان کے روزوں کی فرضیت سے منسوخ ہوگیا۔