كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ المَسْجِدِ الحَرَامِ وَحَيْثُمَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ} إِلَى قَوْلِهِ {وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ} صحيح حدثنا قتيبة بن سعيد، عن مالك، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال بينما الناس في صلاة الصبح بقباء إذ جاءهم آت فقال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أنزل عليه الليلة، وقد أمر أن يستقبل الكعبة، فاستقبلوها. وكانت وجوههم إلى الشأم فاستداروا إلى القبلة.
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (( ومن حیث خرجت فول وجھک شطر المسجد الحرام )) کی تفسیر
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، ان سے امام مالک نے ، ان سے عبد اللہ بن دینارنے اوران سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیا ن کیا کہ ابھی لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ ایک آنے والے صاحب آئے اور کہا کہ رات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا ہے ۔ اس لیے آپ لوگ بھی اسی طرف منہ کرلیں ۔ وہ لوگ شام کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے تھے لیکن اسی وقت کعبہ کی طرف پھرگئے ۔
تشریح :
تحویل قبلہ پر ایک تبصرہ:
نبی کریم اکی عادت مباکہ تھی کہ جس بارے میں کوئی حکم الٰہی موجونہ ہوتا ، اس میں آپ اہل کتاب سے موافقت فرمایا کرتے تھے۔ نماز آغاز نبوت ہی سے فرض ہو چکی تھی۔ مگر قبلہ کے متعلق کوئی حکم نازل نہ ہوا تھا۔ اس لیے مکہ کی تیرہ سالہ اقامت کے عرصہ میں نبی انے بیت المقدس ہی کوقبلہ بنا ئے رکھا۔ مدینہ میں پہنچ کر بھی یہی عمل رہا ، مگر ہجرت کے دوسرے سال یا 17ماہ کے بعد خدا نے اس بارے میں حکم نازل فرمایا ، یہ حکم نبی کی دلی منشاءکے موافق تھاکیونکہ آپ دل سے چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا قبلہ وہ مسجد بنا ئی جائے جس کے بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے۔ جسے مکعب شکل کی عمارت ہونے کی وجہ سے کعبہ اور صرف عبادت الٰہی کے لیے بنائے جانے کی وجہ سے بیت اللہ اور عظمت اور حمت کی وجہ سے مسجد الحرام کہا جاتا تھا۔
اس حکم میں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نازل فرما یا ہے۔
( 1 ) یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جملہ جہا ت سے یکساں نسبت ہے۔ فاینما تولوا فثم وجہ اللہ ( البقرہ: 115 ) اور
ولکل وجھۃ ھو مولیھا فاستبقو الخیرات این ما تکونوا یات بکم اللہ جمیعا ( البقرۃ : 148 )
( 2 ) اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عبادت کے لیے کسی نہ کسی طرف مقرر کر لینا طبقات دوم میں شائع رہا ہے۔ ولکل وجھۃ ھو مولیھا ( البقرۃ: 177 )
( 2 ) اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کسی طرف منہ کر لینا اصل عبادت سے کچھ تعلق نہیں رکھتا لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب ( البقرۃ: 177 )
( 4 ) اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تعیین قبلہ کا بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ متبعین رسول کے لیے ایک ممیز عادت قرار دی جائے۔ لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علیٰ عقبیہ ( البقرۃ : 143 )
یہی وجہ تھی کہ جب تک نبی کریم ا مکہ میں رہے ، اس وقت تک بیت المقدس مسلمانووں کا قبلہ رہا کیونکہ مشرکین مکہ بیت المقدس کے احترام کے قائل نہ تھے اور کعبہ کو تو انہوں نے خود ہی اپنابڑا معبد بنا رکھا تھا۔ اس لیے شرک چھوڑ دینے اور اسلام قبول کر نے کی بین علامت مکہ میں یہی رہی کہ مسلمان ہونے والا بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرے۔ جب نبی کریم امدینہ پہنچے وہاں زیادہ تر یہودی یا عیسائی ہی آباد تھے وہ مکہ کی مسجد الحرام کی عظمت کے قائل نہ تھے اور بیت المقدس کو تو وہ بیت ایل یا ہیکل تسلیم کرتے ہی تھے۔ اس لیے مدینہ میں اسلام قبول کرنے اور آبائی مذہب چھوڑکر مسلمان بننے کی علامت یہ قرار پائی کہ مکہ کی مسجد الحرام کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی جایا کرے۔ حکم الٰہی کے مطابق یہی مسجد ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کا قبلہ قرار پائی۔ اس مسجد کو قبلہ قرار دینے کی وجہ اللہ تعالیٰ نے خودہی بیان فرمادی ہے احج افراد ن اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبارکا وھد ی للعٰلمین ( آل عمران : 96 ) یہ مسجد دنیا کی سب سے پہلی عمارت ہے جو خالص عبادت الٰہی کی غرض سے بنائی گئی ہے۔ چونکہ اسے تقدیم زمانی اور عظمت تاریخی حاصل ہے۔ اس لیے اس کو قبلہ بنایا جانا مناسب ہے۔ واحج افراد ذ یر فع احج افراد براہیم القواعد من البیت واحج افراد سماعیل ( البقرۃ: 27 ) دوم یہ کہ اس مسجد کے بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانو ں کے جد اعلیٰ ہیں۔ اس لیے ان شاندار قوموں کے پدربزرگوار کی مسجد کو قبلہ قرار دینا گویا اقوام ثلاثہ کو اتحاد نسبی وجسمانی کی یاد دلاکر اتحاد روحانی کے لیے دعوت دینا اور متحد بن جانے کاپیغام ادخلوا فی السلم کافۃ ( البقرۃ: 208 ) بنادینا تھا۔ ( ازافادات حضرت قاضی سید سلیمان صاحب منصور پوری مرحوم )
تحویل قبلہ پر ایک تبصرہ:
نبی کریم اکی عادت مباکہ تھی کہ جس بارے میں کوئی حکم الٰہی موجونہ ہوتا ، اس میں آپ اہل کتاب سے موافقت فرمایا کرتے تھے۔ نماز آغاز نبوت ہی سے فرض ہو چکی تھی۔ مگر قبلہ کے متعلق کوئی حکم نازل نہ ہوا تھا۔ اس لیے مکہ کی تیرہ سالہ اقامت کے عرصہ میں نبی انے بیت المقدس ہی کوقبلہ بنا ئے رکھا۔ مدینہ میں پہنچ کر بھی یہی عمل رہا ، مگر ہجرت کے دوسرے سال یا 17ماہ کے بعد خدا نے اس بارے میں حکم نازل فرمایا ، یہ حکم نبی کی دلی منشاءکے موافق تھاکیونکہ آپ دل سے چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا قبلہ وہ مسجد بنا ئی جائے جس کے بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے۔ جسے مکعب شکل کی عمارت ہونے کی وجہ سے کعبہ اور صرف عبادت الٰہی کے لیے بنائے جانے کی وجہ سے بیت اللہ اور عظمت اور حمت کی وجہ سے مسجد الحرام کہا جاتا تھا۔
اس حکم میں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نازل فرما یا ہے۔
( 1 ) یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جملہ جہا ت سے یکساں نسبت ہے۔ فاینما تولوا فثم وجہ اللہ ( البقرہ: 115 ) اور
ولکل وجھۃ ھو مولیھا فاستبقو الخیرات این ما تکونوا یات بکم اللہ جمیعا ( البقرۃ : 148 )
( 2 ) اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عبادت کے لیے کسی نہ کسی طرف مقرر کر لینا طبقات دوم میں شائع رہا ہے۔ ولکل وجھۃ ھو مولیھا ( البقرۃ: 177 )
( 2 ) اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کسی طرف منہ کر لینا اصل عبادت سے کچھ تعلق نہیں رکھتا لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب ( البقرۃ: 177 )
( 4 ) اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تعیین قبلہ کا بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ متبعین رسول کے لیے ایک ممیز عادت قرار دی جائے۔ لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علیٰ عقبیہ ( البقرۃ : 143 )
یہی وجہ تھی کہ جب تک نبی کریم ا مکہ میں رہے ، اس وقت تک بیت المقدس مسلمانووں کا قبلہ رہا کیونکہ مشرکین مکہ بیت المقدس کے احترام کے قائل نہ تھے اور کعبہ کو تو انہوں نے خود ہی اپنابڑا معبد بنا رکھا تھا۔ اس لیے شرک چھوڑ دینے اور اسلام قبول کر نے کی بین علامت مکہ میں یہی رہی کہ مسلمان ہونے والا بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرے۔ جب نبی کریم امدینہ پہنچے وہاں زیادہ تر یہودی یا عیسائی ہی آباد تھے وہ مکہ کی مسجد الحرام کی عظمت کے قائل نہ تھے اور بیت المقدس کو تو وہ بیت ایل یا ہیکل تسلیم کرتے ہی تھے۔ اس لیے مدینہ میں اسلام قبول کرنے اور آبائی مذہب چھوڑکر مسلمان بننے کی علامت یہ قرار پائی کہ مکہ کی مسجد الحرام کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی جایا کرے۔ حکم الٰہی کے مطابق یہی مسجد ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کا قبلہ قرار پائی۔ اس مسجد کو قبلہ قرار دینے کی وجہ اللہ تعالیٰ نے خودہی بیان فرمادی ہے احج افراد ن اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبارکا وھد ی للعٰلمین ( آل عمران : 96 ) یہ مسجد دنیا کی سب سے پہلی عمارت ہے جو خالص عبادت الٰہی کی غرض سے بنائی گئی ہے۔ چونکہ اسے تقدیم زمانی اور عظمت تاریخی حاصل ہے۔ اس لیے اس کو قبلہ بنایا جانا مناسب ہے۔ واحج افراد ذ یر فع احج افراد براہیم القواعد من البیت واحج افراد سماعیل ( البقرۃ: 27 ) دوم یہ کہ اس مسجد کے بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانو ں کے جد اعلیٰ ہیں۔ اس لیے ان شاندار قوموں کے پدربزرگوار کی مسجد کو قبلہ قرار دینا گویا اقوام ثلاثہ کو اتحاد نسبی وجسمانی کی یاد دلاکر اتحاد روحانی کے لیے دعوت دینا اور متحد بن جانے کاپیغام ادخلوا فی السلم کافۃ ( البقرۃ: 208 ) بنادینا تھا۔ ( ازافادات حضرت قاضی سید سلیمان صاحب منصور پوری مرحوم )