كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا} صحيح حدثنا يوسف بن راشد، حدثنا جرير، وأبو أسامة ـ واللفظ لجرير ـ عن الأعمش، عن أبي صالح، وقال أبو أسامة، حدثنا أبو صالح، عن أبي سعيد الخدري، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعى نوح يوم القيامة فيقول لبيك وسعديك يا رب. فيقول هل بلغت فيقول نعم. فيقال لأمته هل بلغكم فيقولون ما أتانا من نذير. فيقول من يشهد لك فيقول محمد وأمته. فتشهدون أنه قد بلغ . {ويكون الرسول عليكم شهيدا} فذلك قوله جل ذكره {وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا} والوسط العدل.
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت کریمہ (( وکذلک جعلنا کم امۃ وسطا )) الخ کی تفسیریعنی
ہم سے یوسف بن راشد نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر اور ابو اسامہ نے بیان کیا ۔ ( حدیث کے الفاظ جریر کی روایت کے مطابق ہیں ) ان سے اعمش نے ، ان سے ابو صالح نے اور ابو اسامہ نے بیان کیا ( یعنی اعمش کے واسطہ سے کہ ) ہم سے ابو صالح نے بیا ن کیا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، قیامت کے دن نوح علیہ السلام کو بلایا جائے گا ۔ وہ عرض کریں گے ، لبیک وسعدیک ، یارب ! اللہ رب العزت فرمائے گا ، کیا تم نے میرا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ نوح علیہ السلام عرض کریں گے کہ میں نے پہنچا دیا تھا ، پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا ، کیا انہوں نے تمہیں میرا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ وہ لوگ کہیں گے کہ ہمارے یہاں کوئی ڈرانے والا نہی آیا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ( نوح علیہ السلام سے ) کہ آپ کے حق میں کوئی گواہی بھی دے سکتاہے ؟ وہ کہیں گے کہ محمد ( ا ) اور ان کی امت میری گواہ ہے ۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ان کے حق میں گواہی دے گی کہ انہوں نے پیغام پہنچا دیا تھا اور رسول ( یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی امت کے حق میں گواہی دیں گے ( کہ انہوں نے سچی گواہی دی ہے ) یہی مراد ہے اللہ کے اس ارشادسے کہ ” اور اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط بنا یا تاکہ تم لوگوں کے لیے گواہی دو اور رسول تمہارے لیے گواہی دیں ۔ “ آیت میں لفظ وسط کے معنی عادل منصف بہتر کے ہیں ۔
تشریح :
یہ جملہ حدیث میں داخل ہے راوی کا کلام نہیں ہے۔ وسط کے معنی بہتر کے ہیں۔ عرب لوگ کہتے ہیں۔ فلان وسط فی قومہ یعنی فلاں اپنی قوم میں سب سے بہتر آدمی ہے۔ ابو معاویہ کی روایت میں اتنازیادہ ہے کہ پر ور دگا ر پوچھے گا تم کو کیسے معلوم ہوا، وہ عرض کریں گے ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو خبر دی تھی کہ اگلے پیغمبروں نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ کے حکم پہنچا دئیے اور ان کی خبر سچی ہے۔ اس حدیث سے یہ قانون نکلا کہ اگر سنی ہوئی بات کا یقین ہوجا ئے تو اس کی گواہی دینا درست ہے۔
یہ جملہ حدیث میں داخل ہے راوی کا کلام نہیں ہے۔ وسط کے معنی بہتر کے ہیں۔ عرب لوگ کہتے ہیں۔ فلان وسط فی قومہ یعنی فلاں اپنی قوم میں سب سے بہتر آدمی ہے۔ ابو معاویہ کی روایت میں اتنازیادہ ہے کہ پر ور دگا ر پوچھے گا تم کو کیسے معلوم ہوا، وہ عرض کریں گے ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو خبر دی تھی کہ اگلے پیغمبروں نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ کے حکم پہنچا دئیے اور ان کی خبر سچی ہے۔ اس حدیث سے یہ قانون نکلا کہ اگر سنی ہوئی بات کا یقین ہوجا ئے تو اس کی گواہی دینا درست ہے۔