كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا صحيح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ حَبِيبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَقْرَؤُنَا أُبَيٌّ وَأَقْضَانَا عَلِيٌّ وَإِنَّا لَنَدَعُ مِنْ قَوْلِ أُبَيٍّ وَذَاكَ أَنَّ أُبَيًّا يَقُولُ لَا أَدَعُ شَيْئًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب:اللہ کاارشاد (( ماننسخ من آیۃ او ننسھا )) الآیۃ کی تفسیر
ہم سے عمر وبن علی نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ، ان سے حبیب نے ، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر رضی ا للہ عنہ نے فرمایا ، ہم میںسب سے بہتر قاری قرآن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں اورہم میںسب سے زیادہ علی رضی للہ عنہ میں قضاء یعنی فیصلے کرنے کی صلاحیت ہے ۔ اس کے باوجود ہم ابی رضی اللہ عنہ کی اس بات کو تسلیم نہیں کرتے جو ابی ص کہتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جن آیات کی بھی تلاوت سنی ہے ، میں انہیں نہیں چھوڑسکتا ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ (( ماننسخ من آیۃ اوننسھا )) الخ ہم نے جو آیت بھی منسوخ کی یا اسے بھلایا تو پھر اس سے اچھی آیت لائے ۔ “
تشریح :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ گوابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہم سب سے زیادہ قرآن مجید کے قاری ہیں مگر بعض آیتیں وہ ایسی بھی پڑھتے ہیں جن کی تلاو ت منسوخ ہوگئی ہے کیونکہ ان کو نسخ کی خبر نہیں پہنچی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ کوئی کیساہی بڑا عالم ہو مگر اس کی سب باتیں ماننے کے قابل نہیں ہوتیں۔ خطا ا اور لغزش ہر ایک عالم سے ممکن ہے۔ بڑا ہو یا چھاٹا ، معصوم عن الخطا ءصرف اللہ کے نبی ورسول ہوتے ہیں جو براہ راست اللہ سے ہمکلامی کا شرف پاتے ہیں ، باقی کوئی نہیں ہے۔ مقلدین ائمہ اربعہ کو اس سے سبق لینا چاہئیے۔ جن کی تقلید پر جمود نے مذاہب اربعہ کو ایک مستقل چار دینوں کی حیثیت دے رکھی ہے۔ ہرحنفی ، شافعی کو بنظر حقارت دیکھتا ہے اور ہر شافعی ، حنفی کو دیکھ کر چرغ پاہوجاتا ہے، الاماشاءاللہ۔ یہ کس قدر افسوسناک بات ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہم ہر گز ایسا تصور نہیں رکھتے تھے کہ ان کے ناموں پر فقہی مسلک کو ایک مستقل دین کی حیثیت دے کر امت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے۔ کہنے والے نے سچ کہا ہے
دین حق راچارمذہب ساختند
رخنہ درد ین نبی اندا ختند
ہر امام بزرگ کا یہی آخری قول ہے کہ اصل دین قرآن وحدیث ہیں جو ان کی بات قرآن کے موافق ہو، ہو سر آنکھو ں سے قبول کی جائیں ، جو بات ان کی قرآن وحدیث کے خلاف ہوا سے چھوڑ دیا جائے اور یہی عقیدہ رکھا جائے کہ غلطی کا امکان ہر کسی سے ہے صرف انبیاءورسل ہی معصوم عن الخطاءہوتے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ گوابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہم سب سے زیادہ قرآن مجید کے قاری ہیں مگر بعض آیتیں وہ ایسی بھی پڑھتے ہیں جن کی تلاو ت منسوخ ہوگئی ہے کیونکہ ان کو نسخ کی خبر نہیں پہنچی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ کوئی کیساہی بڑا عالم ہو مگر اس کی سب باتیں ماننے کے قابل نہیں ہوتیں۔ خطا ا اور لغزش ہر ایک عالم سے ممکن ہے۔ بڑا ہو یا چھاٹا ، معصوم عن الخطا ءصرف اللہ کے نبی ورسول ہوتے ہیں جو براہ راست اللہ سے ہمکلامی کا شرف پاتے ہیں ، باقی کوئی نہیں ہے۔ مقلدین ائمہ اربعہ کو اس سے سبق لینا چاہئیے۔ جن کی تقلید پر جمود نے مذاہب اربعہ کو ایک مستقل چار دینوں کی حیثیت دے رکھی ہے۔ ہرحنفی ، شافعی کو بنظر حقارت دیکھتا ہے اور ہر شافعی ، حنفی کو دیکھ کر چرغ پاہوجاتا ہے، الاماشاءاللہ۔ یہ کس قدر افسوسناک بات ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہم ہر گز ایسا تصور نہیں رکھتے تھے کہ ان کے ناموں پر فقہی مسلک کو ایک مستقل دین کی حیثیت دے کر امت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے۔ کہنے والے نے سچ کہا ہے
دین حق راچارمذہب ساختند
رخنہ درد ین نبی اندا ختند
ہر امام بزرگ کا یہی آخری قول ہے کہ اصل دین قرآن وحدیث ہیں جو ان کی بات قرآن کے موافق ہو، ہو سر آنکھو ں سے قبول کی جائیں ، جو بات ان کی قرآن وحدیث کے خلاف ہوا سے چھوڑ دیا جائے اور یہی عقیدہ رکھا جائے کہ غلطی کا امکان ہر کسی سے ہے صرف انبیاءورسل ہی معصوم عن الخطاءہوتے ہیں۔