كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ} صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بَكْرٍ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ سَمِعَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ بِقُدُومِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهْوَ فِي أَرْضٍ يَخْتَرِفُ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ ثَلَاثٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا نَبِيٌّ فَمَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ وَمَا أَوَّلُ طَعَامِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَمَا يَنْزِعُ الْوَلَدُ إِلَى أَبِيهِ أَوْ إِلَى أُمِّهِ قَالَ أَخْبَرَنِي بِهِنَّ جِبْرِيلُ آنِفًا قَالَ جِبْرِيلُ قَالَ نَعَمْ قَالَ ذَاكَ عَدُوُّ الْيَهُودِ مِنْ الْمَلَائِكَةِ فَقَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُ النَّاسَ مِنْ الْمَشْرِقِ إِلَى الْمَغْرِبِ وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ فَزِيَادَةُ كَبِدِ حُوتٍ وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الرَّجُلِ مَاءَ الْمَرْأَةِ نَزَعَ الْوَلَدَ وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الْمَرْأَةِ نَزَعَتْ قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ بُهُتٌ وَإِنَّهُمْ إِنْ يَعْلَمُوا بِإِسْلَامِي قَبْلَ أَنْ تَسْأَلَهُمْ يَبْهَتُونِي فَجَاءَتْ الْيَهُودُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ رَجُلٍ عَبْدُ اللَّهِ فِيكُمْ قَالُوا خَيْرُنَا وَابْنُ خَيْرِنَا وَسَيِّدُنَا وَابْنُ سَيِّدِنَا قَالَ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ فَقَالُوا أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ فَقَالُوا شَرُّنَا وَابْنُ شَرِّنَا وَانْتَقَصُوهُ قَالَ فَهَذَا الَّذِي كُنْتُ أَخَافُ يَا رَسُولَ اللَّهِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: اللہ تعالیٰ کے ارشاد (من کا ن عدوا لجبریل )کی تفسیر میں
ہم سے عبد اللہ بن منیر نے بیان کیا ، انہوں نے عبد اللہ بن بکر سے سنا ، اس نے کہاکہ مجھ سے حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ( جو یہود کے بڑے عالم تھے ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ( مدینہ ) تشریف لانے کی خبر سنی تو وہ اپنے باغ میں پھل توڑ رہے تھے ۔ وہ اسی وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں آپ سے ایسی تین چیزوں کے متعلق پوچھتا ہوں ، جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔ بتلا ئیے ! قیامت کی نشانیوں میں سب سے پہلی نشانی کیا ہے ؟ اہل جنت کی دعوت کے لیے سب سے پہلے کیا چیزپیش کی جائے گی ؟ بچہ کب اپنے باپ کی صورت میں ہوگا اور کب اپنی ماں کی صورت پر ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، مجھے ابھی جبریل نے آ کر ان کے متعلق بتایا ہے ۔ عبد اللہ بن سلام بولے جبریل علیہ السلام نے ! فرمایا ، ہاں ، عبد اللہ بن سلام نے کہا کہ وہ تو یہودیوں کے دشمن ہیں ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی (( من کان عدوالجبریل فانہ نزلہ علیٰ قلبک )) اور ان کے سوالات کے جواب میں فرمایا ، قیامت کی سب سے پہلی نشانی ایک آگ ہوگی جوانسانوں کو مشرق سے مغرب کی طرف جمع کرلائے گی ۔ اہل جنت کی دعوت میں جوکھانا سب سے پہلے پیش کیا جائے گا وہ مچھلی کے جگر کا بڑھا ہوا حصہ ہوگا اور جب مرد کاپانی عورت کے پانی پر غلبہ کرجاتا ہے تو بچہ باپ کی شکل پر ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غلبہ کرجاتا ہے تو بچہ ماں کی شکل پر ہوتا ہے ۔ عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بول اٹھے ” میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ “ ( پھر عرض کیا ) یارسول اللہ ! یہودی بڑی بہتان باز قوم ہے ، اگر اس سے پہلے کہ آپ میرے متعلق ان سے کچھ پوچھیں ، انہیں میرے اسلام کا پتہ چل گیا تو مجھ پر بہتان تراشیاں شروع کردیں گے ۔ بعد میں جب یہودی آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ، عبد اللہ تمہارے یہاں کیسے آدمی سمجھے جاتے ہیں ؟ وہ کہنے لگے ، ہم میں سب سے بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے بیٹے ! ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ، اگر وہ اسلام لے آئیں پھر تمہارا کیا خیال ہوگا ؟ کہنے لگے ، اللہ تعالیٰ اس سے انہیں پناہ میں رکھے ۔ اتنے میں عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے ظاہر ہوکر کہا کہ ” میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں “ اب وہی یہودی ان کے بارے میں کہنے لگے کہ یہ ہم میں سب سے بدتر ہے اور سب سے بدتر شخص کا بیٹا ہے اور ان کی تو ہین شروع کردی ۔ عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا ، یارسول اللہ ! یہی وہ چیز تھی جس سے میں ڈرتا تھا ۔
تشریح :
واقعہ میں حضرت جبریل علیہ السلام کا ذکر آیا ہے۔ یہی حدیث اور باب میں مطابقت ہے۔ یہودیوں کی حماقت تھی کہ وہ جبریل علیہ السلام فرشتے کو اپنا دشمن کہتے تھے۔ حالانکہ فرشتے اللہ کے حکم کے تابع ہیں جو کچھ حکم الٰہی ہوتا ہے وہ بجالاتے ہیں۔
واقعہ میں حضرت جبریل علیہ السلام کا ذکر آیا ہے۔ یہی حدیث اور باب میں مطابقت ہے۔ یہودیوں کی حماقت تھی کہ وہ جبریل علیہ السلام فرشتے کو اپنا دشمن کہتے تھے۔ حالانکہ فرشتے اللہ کے حکم کے تابع ہیں جو کچھ حکم الٰہی ہوتا ہے وہ بجالاتے ہیں۔