‌صحيح البخاري - حدیث 4477

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى: {فَلاَ تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ} [البقرة: 22] صحيح حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ قُلْتُ إِنَّ ذَلِكَ لَعَظِيمٌ قُلْتُ ثُمَّ أَيُّ قَالَ وَأَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ تَخَافُ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ قُلْتُ ثُمَّ أَيُّ قَالَ أَنْ تُزَانِيَ حَلِيلَةَ جَارِكَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4477

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: اللہ تعالیٰ کے ارشاد( فلاتجعلوا للہ اندادا واانتم تعلمون ) کی تفسیر میں ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا ، ان سے منصور نے ، ان سے ابو وائل نے ، ان سے عمر وبن شرحبیل نے اور ان سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ، اللہ کے نزدیک کو ن سا گنا ہ سب سے بڑا ہے ؟ فرمایا اوریہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو برابر ٹھہراؤ حالانکہ اللہ ہی نے تم کو پید اکیا ہے ۔ میں نے عرض کیا یہ تو واقعی سب سے بڑا گناہ ہے ، پھر اس کے بعد کون ساگناہ سب سے بڑاہے ؟ فرمایا یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مارڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں گے ۔ میں نے پوچھا اور اس کے بعد ؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرو
تشریح : ند کہتے ہیں نظیر یعنی جوڑاور برابر والے کو انداد اس کی جمع ہے۔ ند سے صرف یہی مراد نہیں ہے کہ اللہ کے سوا اور دوسرا کوئی اور خدا سمجھے کیونکہ عرب کے اکثر مشرک اور دوسرے ملکوں کے مشرکین بھی خدا کو ایک ہی سمجھتے تھے جیساکہ فرمایا ولئن سالتم من خلق السمٰوات والارض لیقولن اللہ ( لقمان : 25 ) یعنی اگر تم ان مشرکوں سے پوچھو کہ زمین وآسمان کا پیدا کرنے والا کون ہے؟ توفورا کہہ دیں گے کہ صرف اللہ پاک ہی خالق ہے۔ اس کہنے کے باوجود بھی اللہ نے ان کو مشرک ہی قرار دیا۔ بات یہ ہے کہ اللہ کی جوصفات خاص ہیں جیسے محیط ، سمیع ، علیم، قدرت کا ملہ ، تصرف کامل ان صفات کو کوئی شخص کسی دوسرے کے لیے ثابت کرے، اس نے بھی اللہ کا ند یعنی برابر والا اس دوسرے کو ٹھہرا یا یا مثلا کوئی یوں سمجھے کہ فلاں پیر یا پیغمبر دو ریانزدیک ہر چیز کو دیکھ لیتے ہیں یا ہر بات ان کو معلوم ہوجاتی ہے یا وہ جو چاہیں سو کرسکتے ہیں تو وہ مشرک ہوگیا۔ اسی طرح جو کوئی اللہ کے سوا اور کسی کی پوجا پاٹ کرے ، اس کے نام کا روزہ رکھے ، اس کی منت مانے، اس کے نام پر جانور کاٹے ، اس کی قبر پر نذر ونیازچڑھائے ، اس کا نام اٹھتے بیٹھتے یاد کرے، اس کے نام کا وظیفہ پڑھے وہ بھی مشرک ہو جاتاہے۔ توحید یہ ہے کہ اللہ کے سوا نہ کسی اور کو پکا رے نہ اس کی پوجا کرے بلکہ سب کو صرف اسی ایک اللہ کا محتاج سمجھے اوریہ اعتقاد رکھے کہ نفع ونقصان صرف ایک اللہ رب العالمین ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اولاد کا دینا ، بارش برسانا ، روزی میں فراخی عطاکرنا ، مارنا ، جلانا سب کچھ صرف اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ اگر کوئی یہ چیزیں اللہ کے سوا اور کسی پیر ، پیغمبر سے مانگے تو وہ بھی بت پرستوں ہی کی طرح مشرک ہوجا تا ہے۔ الغرض تو حید کی دو قسمیں یا د رکھنے کے قابل ہیں۔ ایک تو حید ربوبیت ہے یعنی رب ، خالق ، مالک کے طور پر اللہ کو ایک جاننا جیسا کہ مشرکین مکہ کا قول نقل ہو ا ہے۔ یہ توحید نجات کے لیے کافی نہیں ہے۔ دوسرے قسم توحید الوہیت ہے یعنی بطور الٰہ ، معبود ، مسجود صرف ایک اللہ رب العالمین کو ماننا۔ عبادت بندگی کی جس قدر قسمیںہیں ان سب کو صرف ایک اللہ رب العالمین ہی کے لیے بجالانا اسی کو توحید الولوہیت کہتے ہیں۔ یہی کلمہ طیبہ لاالٰہ الا اللہ کا مطلب ہے اور تمام انبیاءکرام کی اولین دعوت یہی توحید الولوہیت رہی ہے، وبا للہ التوفیق۔ ند کہتے ہیں نظیر یعنی جوڑاور برابر والے کو انداد اس کی جمع ہے۔ ند سے صرف یہی مراد نہیں ہے کہ اللہ کے سوا اور دوسرا کوئی اور خدا سمجھے کیونکہ عرب کے اکثر مشرک اور دوسرے ملکوں کے مشرکین بھی خدا کو ایک ہی سمجھتے تھے جیساکہ فرمایا ولئن سالتم من خلق السمٰوات والارض لیقولن اللہ ( لقمان : 25 ) یعنی اگر تم ان مشرکوں سے پوچھو کہ زمین وآسمان کا پیدا کرنے والا کون ہے؟ توفورا کہہ دیں گے کہ صرف اللہ پاک ہی خالق ہے۔ اس کہنے کے باوجود بھی اللہ نے ان کو مشرک ہی قرار دیا۔ بات یہ ہے کہ اللہ کی جوصفات خاص ہیں جیسے محیط ، سمیع ، علیم، قدرت کا ملہ ، تصرف کامل ان صفات کو کوئی شخص کسی دوسرے کے لیے ثابت کرے، اس نے بھی اللہ کا ند یعنی برابر والا اس دوسرے کو ٹھہرا یا یا مثلا کوئی یوں سمجھے کہ فلاں پیر یا پیغمبر دو ریانزدیک ہر چیز کو دیکھ لیتے ہیں یا ہر بات ان کو معلوم ہوجاتی ہے یا وہ جو چاہیں سو کرسکتے ہیں تو وہ مشرک ہوگیا۔ اسی طرح جو کوئی اللہ کے سوا اور کسی کی پوجا پاٹ کرے ، اس کے نام کا روزہ رکھے ، اس کی منت مانے، اس کے نام پر جانور کاٹے ، اس کی قبر پر نذر ونیازچڑھائے ، اس کا نام اٹھتے بیٹھتے یاد کرے، اس کے نام کا وظیفہ پڑھے وہ بھی مشرک ہو جاتاہے۔ توحید یہ ہے کہ اللہ کے سوا نہ کسی اور کو پکا رے نہ اس کی پوجا کرے بلکہ سب کو صرف اسی ایک اللہ کا محتاج سمجھے اوریہ اعتقاد رکھے کہ نفع ونقصان صرف ایک اللہ رب العالمین ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اولاد کا دینا ، بارش برسانا ، روزی میں فراخی عطاکرنا ، مارنا ، جلانا سب کچھ صرف اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ اگر کوئی یہ چیزیں اللہ کے سوا اور کسی پیر ، پیغمبر سے مانگے تو وہ بھی بت پرستوں ہی کی طرح مشرک ہوجا تا ہے۔ الغرض تو حید کی دو قسمیں یا د رکھنے کے قابل ہیں۔ ایک تو حید ربوبیت ہے یعنی رب ، خالق ، مالک کے طور پر اللہ کو ایک جاننا جیسا کہ مشرکین مکہ کا قول نقل ہو ا ہے۔ یہ توحید نجات کے لیے کافی نہیں ہے۔ دوسرے قسم توحید الوہیت ہے یعنی بطور الٰہ ، معبود ، مسجود صرف ایک اللہ رب العالمین کو ماننا۔ عبادت بندگی کی جس قدر قسمیںہیں ان سب کو صرف ایک اللہ رب العالمین ہی کے لیے بجالانا اسی کو توحید الولوہیت کہتے ہیں۔ یہی کلمہ طیبہ لاالٰہ الا اللہ کا مطلب ہے اور تمام انبیاءکرام کی اولین دعوت یہی توحید الولوہیت رہی ہے، وبا للہ التوفیق۔