‌صحيح البخاري - حدیث 447

كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ التَّعَاوُنِ فِي بِنَاءِ المَسْجِدِ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ مُخْتَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ الحَذَّاءُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ وَلِابْنِهِ عَلِيٍّ: انْطَلِقَا إِلَى أَبِي سَعِيدٍ فَاسْمَعَا مِنْ حَدِيثِهِ، فَانْطَلَقْنَا فَإِذَا هُوَ فِي حَائِطٍ يُصْلِحُهُ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَاحْتَبَى، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا حَتَّى أَتَى ذِكْرُ بِنَاءِ المَسْجِدِ، فَقَالَ: كُنَّا نَحْمِلُ لَبِنَةً لَبِنَةً وَعَمَّارٌ لَبِنَتَيْنِ لَبِنَتَيْنِ، فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْهُ، وَيَقُولُ: «وَيْحَ عَمَّارٍ، تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الجَنَّةِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ» قَالَ: يَقُولُ عَمَّارٌ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الفِتَنِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 447

کتاب: نماز کے احکام و مسائل باب: مسجد بنانے میں مدد کرنا ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے عکرمہ سے، انھوں نے بیان کیا کہ مجھ سے اور اپنے صاحبزادے علی سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جاؤ اور ان کی احادیث سنو۔ ہم گئے۔ دیکھا کہ ابوسعید رضی اللہ عنہ اپنے باغ کو درست کر رہے تھے۔ ہم کو دیکھ کر آپ نے اپنی چادر سنبھالی اور گوٹ مار کر بیٹھ گئے۔ پھر ہم سے حدیث بیان کرنے لگے۔ جب مسجد نبوی کے بنانے کا ذکر آیا تو آپ نے بتایا کہ ہم تو ( مسجد کے بنانے میں حصہ لیتے وقت ) ایک ایک اینٹ اٹھاتے۔ لیکن عمار دو دو اینٹیں اٹھا رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو ان کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا، افسوس! عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔ جسے عمار جنت کی دعوت دیں گے اور وہ جماعت عمار کو جہنم کی دعوت دے رہی ہو گی۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں فتنوں سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔
تشریح : یہاں مذکورہ علی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بیٹے ہیں۔ جس دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش فرمایا، اسی دن یہ پیدا ہوئے تھے۔ اسی لیے ان کا نام علی رکھا گیا اورکنیت ابوالحسن۔ یہ قریش میں بہت ہی حسین وجمیل اوربڑے عابد و زاہد تھے۔ 120 ھ کے بعد ان کا انتقال ہوا۔ حضرت عمار بن یاسر بڑے جلیل القدر صحابی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جاں نثار تھے۔ ان کی ماں سمیہ رضی اللہ عنہا بھی بڑے عزم وایقان والی خاتون گزری ہیں جن کو شہید کردیاگیا تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بڑے لوگوں کی صحبت میں بیٹھناان سے دین کی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس حدیث سے چند باتیں واضح ہوتی ہیں مثلاً حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی طرح علم وفضل کے باوجود کھیتی باڑی کے کاموں میں مشغول رہنابھی امر مستحسن ہے۔ آنے والے مہمانوں کے احترام کے لیے اپنے کاروبار والے لباس کو درست کرکے پہن لینا اوران کے لیے کام چھوڑدینا اوران سے بات چیت کرنا بھی بہت ہی اچھا طریقہ ہے۔ ( 3 ) مساجد کی تعمیر میں خود پتھر اٹھا اٹھاکر مدد دینا اتنا بڑا ثواب کا کام ہے جس کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتاہے۔ قسطلانی نے کہا کہ امام بخاری نے اس حدیث کو باب الجہاد اورباب الفتن میں بھی روایت کیاہے۔ اس واقعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی بھی روشن دلیل ہے کہ آپ نے اتنا عرصہ پہلے جو خبردی وہ من وعن پوری ہوکررہی، اس لیے کہ وماینطق عن الہوی ان ہو الا وحی یوحی آپ دین کے بارے میں جو کچھ بھی فرماتے ہیں وہ اللہ کی وحی سے فرمایا کرتے تھے۔ سچ ہے مصطفی ہرگز نہ گفتے تا نہ گفتے جبرئیل جبرئیل ہرگز نہ گفتے تا نہ گفتے پروردگار یہاں مذکورہ علی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بیٹے ہیں۔ جس دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش فرمایا، اسی دن یہ پیدا ہوئے تھے۔ اسی لیے ان کا نام علی رکھا گیا اورکنیت ابوالحسن۔ یہ قریش میں بہت ہی حسین وجمیل اوربڑے عابد و زاہد تھے۔ 120 ھ کے بعد ان کا انتقال ہوا۔ حضرت عمار بن یاسر بڑے جلیل القدر صحابی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جاں نثار تھے۔ ان کی ماں سمیہ رضی اللہ عنہا بھی بڑے عزم وایقان والی خاتون گزری ہیں جن کو شہید کردیاگیا تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بڑے لوگوں کی صحبت میں بیٹھناان سے دین کی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس حدیث سے چند باتیں واضح ہوتی ہیں مثلاً حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی طرح علم وفضل کے باوجود کھیتی باڑی کے کاموں میں مشغول رہنابھی امر مستحسن ہے۔ آنے والے مہمانوں کے احترام کے لیے اپنے کاروبار والے لباس کو درست کرکے پہن لینا اوران کے لیے کام چھوڑدینا اوران سے بات چیت کرنا بھی بہت ہی اچھا طریقہ ہے۔ ( 3 ) مساجد کی تعمیر میں خود پتھر اٹھا اٹھاکر مدد دینا اتنا بڑا ثواب کا کام ہے جس کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتاہے۔ قسطلانی نے کہا کہ امام بخاری نے اس حدیث کو باب الجہاد اورباب الفتن میں بھی روایت کیاہے۔ اس واقعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی بھی روشن دلیل ہے کہ آپ نے اتنا عرصہ پہلے جو خبردی وہ من وعن پوری ہوکررہی، اس لیے کہ وماینطق عن الہوی ان ہو الا وحی یوحی آپ دین کے بارے میں جو کچھ بھی فرماتے ہیں وہ اللہ کی وحی سے فرمایا کرتے تھے۔ سچ ہے مصطفی ہرگز نہ گفتے تا نہ گفتے جبرئیل جبرئیل ہرگز نہ گفتے تا نہ گفتے پروردگار