كِتَابُ المَغَازِي بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ ﷺ وَوَفَاتِهِ صحيح قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَحَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ خَرَجَ وَعُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ يُكَلِّمُ النَّاسَ فَقَالَ: اجْلِسْ يَا عُمَرُ، فَأَبَى عُمَرُ أَنْ يَجْلِسَ، فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَيْهِ، وَتَرَكُوا عُمَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمَّا بَعْدُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لاَ يَمُوتُ، قَالَ اللَّهُ: {وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ} [آل عمران: 144] إِلَى قَوْلِهِ {الشَّاكِرِينَ} [آل عمران: 144]، وَقَالَ: وَاللَّهِ لَكَأَنَّ النَّاسَ لَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ هَذِهِ الآيَةَ حَتَّى تَلاَهَا أَبُو بَكْرٍ، فَتَلَقَّاهَا مِنْهُ النَّاسُ كُلُّهُمْ، فَمَا أَسْمَعُ بَشَرًا مِنَ النَّاسِ إِلَّا يَتْلُوهَا فَأَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ، أَنَّ عُمَرَ قَالَ: «وَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ تَلاَهَا فَعَقِرْتُ، حَتَّى مَا تُقِلُّنِي رِجْلاَيَ، وَحَتَّى أَهْوَيْتُ إِلَى الأَرْضِ حِينَ سَمِعْتُهُ تَلاَهَا، عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ»
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: نبی کریم کی بیماری اور آپ کی وفات
زہری نے بیان کیا اور ان سے ابو سلمہ نے بیان کیا ، ان سے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے کچھ کہہ رہے تھے ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا عمر ! بیٹھ جاؤ ، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیٹھنے سے انکا ر کیا ۔ اتنے میں لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑکر ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آگئے اور آپ نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا ، اما بعد ! تم میں جو بھی محمد اکی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہو نا چا ہےے کہ آپ کی وفات ہو چکی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھاتو ( اس کا معبود ) اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور اس کو کبھی موت نہیں آئے گی ۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ ” محمد صرف رسول ہیں ، ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں “ ارشاد ” الشاکرین “ تک ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ، خدا کی قسم ! ایسا محسوس ہوا کہ جیسے پہلے سے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے اور جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کی تلاوت کی تو سب نے ان سے یہ آیت سیکھی ۔ اب یہ حال تھا کہ جو بھی سنتا تھا وہی اس کی تلاوت کرنے لگ جاتا تھا ۔ ( زہری نے بیان کیاکہ ) پھر مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ، خدا کی قسم ! مجھے اس وقت ہوش آیا ، جب میں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سنا ، جس وقت میں نے انہیں تلاوت کرتے سنا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ہے تومیں سکتے میں آگیا اور ایسا محسوس ہواکہ میرے پاؤں میرا بوجھ نہیں اٹھا پائیں گے اور میں زمین پر گرا ج اؤں گا ۔
تشریح :
ایسے نازک وقت میں امت کو سنبھالنا یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کا مقام تھا ۔ اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے ہی ان کو اپناخلیفہ بنا کر امام نماز بنا دیاتھا جو ان کی خلافت حقہ کی روشن دلیل ہے۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر کہ خداآپ پر دوموت طاری نہیں کرے گا۔ ان صحابہ رضی اللہ عنہم کا رد کیا جو یہ سمجھتے تھے کہ آنحضرت اپھر زندہ ہوںگے اور منافقوں کے ہاتھ پاؤں کاٹیں گے کیونکہ اگر ایسا ہوتو پھر وفات ہوگی گویا دوبارموت ہوجائے گی۔ بعضوں نے کہا دوبار موت نہ ہونے سے یہ مطلب ہے کہ پھر قبر میں آپ کوموت نہ ہوگی بلکہ آپ زندہ رہیں گے ۔ امام احمد کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ، میں نے آپ کو ایک کپڑے سے ڈھانک دیا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ اور مغیر ہ رضی اللہ عنہ آئے۔ دونوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی ۔ میں نے اجازت دے دی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نعش کو دیکھ کر کہا ہائے آپ بیہوش ہوگئے ہیں۔ مغیر ہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ انتقال فرماچکے ہیں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ مغیر ہ رضی اللہ عنہ کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک مرنے والے نہیں ہیں جب تک سارے منافقین کا قلع قمع نہ کردیں ۔ ایک روایت میں یوں ہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ یوں کہہ رہے تھے کہ خبردار! جو کوئی کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مرگئے ہیں، میں تلوار سے اس کاسر اڑا دوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ کو واقعی یہ یقین تھا کہ آنحضرت امرے نہیں ہیں یا ان کا یہ فرمانابڑی مصلحت اور سیاست پر مبنی ہوگا ۔ انہوںنے یہ چاہا کہ پہلے خلافت کا انتظام ہوجائے بعد میں آپ کی وفات کو ظاہر کیا جائے، ایسا نہ ہو کہ آپ کی وفات کاحال سن کر دین میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے۔
ایسے نازک وقت میں امت کو سنبھالنا یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کا مقام تھا ۔ اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے ہی ان کو اپناخلیفہ بنا کر امام نماز بنا دیاتھا جو ان کی خلافت حقہ کی روشن دلیل ہے۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر کہ خداآپ پر دوموت طاری نہیں کرے گا۔ ان صحابہ رضی اللہ عنہم کا رد کیا جو یہ سمجھتے تھے کہ آنحضرت اپھر زندہ ہوںگے اور منافقوں کے ہاتھ پاؤں کاٹیں گے کیونکہ اگر ایسا ہوتو پھر وفات ہوگی گویا دوبارموت ہوجائے گی۔ بعضوں نے کہا دوبار موت نہ ہونے سے یہ مطلب ہے کہ پھر قبر میں آپ کوموت نہ ہوگی بلکہ آپ زندہ رہیں گے ۔ امام احمد کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ، میں نے آپ کو ایک کپڑے سے ڈھانک دیا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ اور مغیر ہ رضی اللہ عنہ آئے۔ دونوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی ۔ میں نے اجازت دے دی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نعش کو دیکھ کر کہا ہائے آپ بیہوش ہوگئے ہیں۔ مغیر ہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ انتقال فرماچکے ہیں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ مغیر ہ رضی اللہ عنہ کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک مرنے والے نہیں ہیں جب تک سارے منافقین کا قلع قمع نہ کردیں ۔ ایک روایت میں یوں ہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ یوں کہہ رہے تھے کہ خبردار! جو کوئی کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مرگئے ہیں، میں تلوار سے اس کاسر اڑا دوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ کو واقعی یہ یقین تھا کہ آنحضرت امرے نہیں ہیں یا ان کا یہ فرمانابڑی مصلحت اور سیاست پر مبنی ہوگا ۔ انہوںنے یہ چاہا کہ پہلے خلافت کا انتظام ہوجائے بعد میں آپ کی وفات کو ظاہر کیا جائے، ایسا نہ ہو کہ آپ کی وفات کاحال سن کر دین میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے۔