كِتَابُ المَغَازِي بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ ﷺ وَوَفَاتِهِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا عَفَّانُ عَنْ صَخْرِ بْنِ جُوَيْرِيَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ دَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مُسْنِدَتُهُ إِلَى صَدْرِي وَمَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ سِوَاكٌ رَطْبٌ يَسْتَنُّ بِهِ فَأَبَدَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَصَرَهُ فَأَخَذْتُ السِّوَاكَ فَقَصَمْتُهُ وَنَفَضْتُهُ وَطَيَّبْتُهُ ثُمَّ دَفَعْتُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَنَّ بِهِ فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَنَّ اسْتِنَانًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ فَمَا عَدَا أَنْ فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَهُ أَوْ إِصْبَعَهُ ثُمَّ قَالَ فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى ثَلَاثًا ثُمَّ قَضَى وَكَانَتْ تَقُولُ مَاتَ بَيْنَ حَاقِنَتِي وَذَاقِنَتِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: نبی کریم کی بیماری اور آپ کی وفات
ہم سے محمد بن یحییٰ ذہلی نے بیان کیا ۔ کہاہم سے عفان بن مسلم نے بیان کیا ، ان سے صخر بن جویریہ نے ، ان سے عبد الرحمن بن قاسم نے ، ان سے ان کے والد ( قاسم بن محمد ) نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ( ان کے بھائی ) عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ایک تازہ مسواک استعمال کے لیے تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسواک کی طرف دیکھتے رہے ۔ چنانچہ میں نے ان سے مسواک لے لی اور اسے اپنے دانتوں سے چباکر اچھی طرح جھاڑنے اور صاف کرنے کے بعد حضور ا کو دے دی ۔ آپ نے وہ مسواک استعمال کی جتنے عمدہ طریقہ سے حضور ا اس وقت مسواک کررہے تھے ، میں نے آپ کو اتنی اچھی طرح مسواک کرتے کبھی نہیں دیکھا ۔ مسواک سے فارغ ہونے کے بعدآپ نے اپنا ہاتھ یا اپنی انگلی اٹھا ئی اور فرمایا ۔ ” فی الرفیق الاعلیٰ “ تین مرتبہ ، اور آپ کا انتقال ہوگیا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو سر مبارک میری ہنسلی اور ٹھوڑی کے درمیان میں تھا ۔
تشریح :
اس میں یہ اشارہ تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا اور آخرت دونوں میں ایک جگہ رہیں گے۔ حضرت علی رضی ا للہ عنہ فرماتے ہیں اللہ جانتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دنیا اور آخرت میں آپ کی بیوی ہیں ۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں کھانا تیا ر کرکے ایصال ثواب کے وقت آنحضرت ااور حضرت فاطمہ اورحسنین رضی اللہ عنہم کے ثواب کی نیت کیا کرتا تھا ۔ ایک شب خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے دیکھا کہ آپ عتاب کی نظر سے مجھ کو دیکھ رہے ہیں ۔ میں نے سبب پوچھا ارشاد ہوا یہ امر سب کو معلوم ہے کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں کھانا کھایا کرتا ہوں۔ ( لہٰذا تم کو بھی ایصال ثواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی شامل کرنا چاہئیے ) حضرت مجدد کہتے ہیں میں نے اس روز سے آپ کی ازواج مطہرات خصوصا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی ایصال ثواب میں شریک کرنا شروع کردیا۔ کھانا کھلانے کے لیے مطلقا ایسا ایصال ثواب جو کسی قیدیا رسم کے بغیر ہو اور خالص خدا کی رضا کے لیے کسی غریب مسکین یتیم کو کھلایا جائے اور اس کا ثواب بزرگوں کو بخشا جائے، اس کے جو از میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
اس میں یہ اشارہ تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا اور آخرت دونوں میں ایک جگہ رہیں گے۔ حضرت علی رضی ا للہ عنہ فرماتے ہیں اللہ جانتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دنیا اور آخرت میں آپ کی بیوی ہیں ۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں کھانا تیا ر کرکے ایصال ثواب کے وقت آنحضرت ااور حضرت فاطمہ اورحسنین رضی اللہ عنہم کے ثواب کی نیت کیا کرتا تھا ۔ ایک شب خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے دیکھا کہ آپ عتاب کی نظر سے مجھ کو دیکھ رہے ہیں ۔ میں نے سبب پوچھا ارشاد ہوا یہ امر سب کو معلوم ہے کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں کھانا کھایا کرتا ہوں۔ ( لہٰذا تم کو بھی ایصال ثواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی شامل کرنا چاہئیے ) حضرت مجدد کہتے ہیں میں نے اس روز سے آپ کی ازواج مطہرات خصوصا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی ایصال ثواب میں شریک کرنا شروع کردیا۔ کھانا کھلانے کے لیے مطلقا ایسا ایصال ثواب جو کسی قیدیا رسم کے بغیر ہو اور خالص خدا کی رضا کے لیے کسی غریب مسکین یتیم کو کھلایا جائے اور اس کا ثواب بزرگوں کو بخشا جائے، اس کے جو از میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔