كِتَابُ المَغَازِي بَابُ نُزُولِ النَّبِيِّ ﷺ الحِجْرَ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمَّا مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحِجْرِ قَالَ لَا تَدْخُلُوا مَسَاكِنَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ أَنْ يُصِيبَكُمْ مَا أَصَابَهُمْ إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ ثُمَّ قَنَّعَ رَأْسَهُ وَأَسْرَعَ السَّيْرَ حَتَّى أَجَازَ الْوَادِيَ
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: حجر بستی سے آنحضرت ﷺ کا گزرنا
ہم سے عبد اللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا ، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ، انہیں زہری نے ، انہیں سالم بن عبد اللہ نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقام حجر سے گزر ے تو آپ نے فرمایا ، ان لوگوں کی بستیوں سے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا ، جب گزنا ہوتو روتے ہوئے ہی گزرو ، ایسا نہ ہوکہ تم پر بھی وہی عذاب آجائے جو ان پر آیا تھا ۔ پھر آپ نے سرمبارک پر چا در ڈال لی اور بڑی تیزی کے ساتھ چلنے لگے ، یہاں تک کہ اس وادی سے نکل آئے ۔کہ اس معاملہ میں جھوٹ بول کر میں اپنے کو کسی طرح محفوظ نہیں کر سکتا ۔ چنانچہ میں نے سچی بات کہنے کا پختہ ارادہ کرلیا ۔ صبح کے وقت آنحضر ت اتشریف لائے ۔ جب آپ کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تو یہ آپ کی عادت تھی کہ پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور دورکعت نماز پڑھتے ، پھر لوگوں کے ساتھ مجلس میں بیٹھتے ۔ جب آپ اس عمل سے فارغ ہوچکے تو آپ کی خدمت میں لوگ آنے لگے جوغزوہ میں شریک نہیںہو سکے تھے اور قسم کھا کھا کر اپنے عذر بیان کرنے لگے ۔ ایسے لوگوںکی تعداد اسی کے قریب تھی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ظاہر کو قبول فرمالیا ، ان سے عہد لیا ۔ ان کے لیے مغفرت کی د عا فرمائی اوران کے باطن کو اللہ کے سپرد کیا ۔ اس کے بعد میں حاضرہوا ۔ میں نے سلام کیا تو آپ مسکرائے ۔ آپ کی مسکراہٹ میں خفگی تھی ۔ آپ نے فرمایا آؤ ، میں چند قدم چل کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا ۔ آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ تم غزوہ میں کیوں شریک نہیں ہوئے ۔ کیا تم نے کوئی سواری نہیں خریدی تھی ؟ میں نے عرض کیا ، میرے پاس سواری موجود تھی ، خداکی قسم ! اگر میں آپ کے سوا کسی دنیا دار شخص کے سا منے آج بیٹھا ہوتا تو کوئی نہ کوئی عذر گھڑکر اس کی خفگی سے بچ سکتا تھا ، مجھے خوبصورتی کے ساتھ گفتگو کا سلیقہ معلوم ہے ۔ لیکن خداکی قسم ! مجھے یقین ہے کہ اگر آج میں آپ کے سا منے کوئی جھوٹا عذر بیان کر کے آپ کو راضی کرلوں تو بہت جلد اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کردے گا ۔ اس کے بجائے اگر میں آپ سے سچی بات بیان کر دوں تو یقینا آپ کو میری طرف سے خفگی ہوگی لیکن اللہ سے مجھے معافی کی پوری امید ہے ۔ نہیں ، خداکی قسم ! مجھے کوئی عذر نہیں تھا ، خدا کی قسم اس وقت سے پہلے کبھی میں اتنا فارغ البال نہیں تھا اور پھر بھی میں آپ کے ساتھ شریک نہیں ہوسکا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انھوں نے سچی بات بتادی ، اچھا اب جاؤ ، یہا ں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں خود کوئی فیصلہ کردے ۔ میں اٹھ گیا اور میرے پیچھے بنوسلمہ کے کچھ لوگ بھی دوڑے ہوئے آئے اور مجھسے کہنے لگے کہ خداکی قسم ، ہمیں تمہارے متعلق یہ معلوم نہیں تھا کہ اس سے پہلے تم نے کوئی گنا ہ کیا ہے اور تم نے بڑی کوتا ہی کی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ویسا ہی کوئی عذر نہیں بیان کیا جیسا دوسرے نہ شریک ہونے والوں نے بیان کردیاتھا ۔ تمہارے گناہ کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار ہی کا فی ہوجاتا ۔ خدا کی قسم ان لوگوں نے مجھے اس پر اتنی ملامت کی کہ مجھے خیا ل آیا کہ واپس جاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی جھوٹا عذر کرآؤں ، پھر میں نے ان سے پوچھا کیا میرے علاوہ کسی اور نے بھی مجھ جیسا عذر بیان کیا ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں دو حضرات نے اسی طرح معذرت کی جس طرح تم نے کی ہے اور انہیں جواب بھی وہی ملا ہے جو تمہیں ملا ۔ میں نے پوچھا کہ ان کے نام کیا ہیں ؟ انہوں نے بتا کیا کہ مرارہ بن ربیع عمری اور ہلال بن امیہ واقفی رضی اللہ عنہما ۔ ان دو ایسے صحابہ کا نام انہوں نے لے دیا تھا جو صالح تھے اور بدر کی جنگ میں شریک ہوئے تھے ۔ ان کا طرز عمل میرے لیے نمونہ بن گیا ۔ چنانچہ انہوں نے جب ان بزرگوں کا نام لیا تو میں اپنے گھر چلاآیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوںکو ہم سے بات چیت کرنے کی ممانعت کردی ، بہت سے لوگ جو غزوے میں شریک نہیں ہوئے تھے ، ان میں سے صرف ہم تین تھے ! لوگ ہم سے الگ رہنے لگے اور سب لوگ بدل گئے ۔ ایسا نظر آتا تھا کہ ہم سے ساری دنیا بدل گئی ہے ۔ ہمارا اس سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے ۔ پچاس دن تک ہم اسی طرح رہے ، میرے دو ساتھیوں نے تو اپنے گھروں سے نکلنا ہی چھوڑ دیا ، بس روتے رہتے تھے لیکن میرے اندر ہمت تھی کہ میں باہر نکلتا تھا ، مسلمانوںکے ساتھ نماز میں شریک ہوتا تھا اور بازاروں میں گھوما کرتا تھالیکن مجھ سے بولتا کوئی نہ تھا ۔ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی حاضرہوتا تھا ، آپ کو سلام کرتا ، جب آپ نماز کے بعد مجلس میں بیٹھتے ، میں اس کی جستجومیں لگا رہتا تھاکہ دیکھوں سلام کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہونٹ ہلے یا نہیں ، پھر آپ کے قریب ہی نماز پڑھنے لگ جاتا اور آپ کو کنکھیوں سے دیکھتا رہتاجب میں اپنی نماز میں مشغول ہوجاتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھتے لیکن جونہی میں آپ کی طرف دیکھتا آپ رخ مبارک پھیر لےتے ۔ آخر جب اس طرح لوگوںکی بے رخی بڑھتی ہی گئی تو میں ( ایک دن ) ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی دیوار پر چڑھ گیا ، وہ میرے چچا زاد بھائی تھے اور مجھے ان سے بہت گہرا تعلق تھا ، میں نے انہیں سلام کیا ، لیکن خدا کی قسم ! انھوں نے بھی میرے سلام کا جواب نہیں دیا ۔ میںنے کہا ، ابو قتادہ ! تمہیں اللہ کی قسم ! کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ اور اس کے رسول اسے مجھے کتنی محبت ہے ۔ انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ میں نے دوبارہ ان سے یہی سوا ل کیا خداکی قسم دے کر لیکن اب بھی وہ خاموش تھے ، پھر میں نے اللہ کا واسطہ دے کر ان سے یہی سوال کیا ۔ اس مرتبہ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کوزیادہ علم ہے ۔ اس پر میرے آنسو پھوٹ پڑے ۔ میں واپس چلاآیا اور دیوار پر چڑھ کر ( نیچے ، باہر اتر آیا ) انھوں نے بیان کیا کہ ایک دن میں مدینہ کے بازار میں جارہاتھا کہ شام کا ایک کاشتکا رجو غلہ بیچنے مدینہ آیا تھا ، پوچھ رہا تھا کہ کعب بن مالک کہا ںرہتے ہیں ؟ لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا تووہ میرے پاس آیا اور ملک غسان کا ایک خط مجھے دیا ، اس خط میں یہ تحریر تھا ۔ ” امابعد ! مجھے معلوم ہواہے کہ تمہار ے صاحب ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے ساتھ زیادتی کرنے لگے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کوئی ذلیل نہیں پیدا کیا ہے کہ تمہارا حق ضائع کیا جائے ، تم ہمارے پاس آجاؤ ، ہم تمہارے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کریں گے ۔ “ جب میں نے یہ خط پڑھا تو میں نے کہا کہ یہ ایک اور امتحان آگیا ۔ میں نے اس خط کو تنور میں جلادیا ۔ ان پچاس دنوںمیںسے جب چالیس دن گزر چکے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی میرے پاس آئے اور کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں حکم دیاہے کہ اپنی بیوی کے بھی قریب نہ جاؤ ۔ میں نے پوچھا میں اسے طلاق دے دوںیا پھر مجھے کیا کرنا چاہئےے ؟ انھوں نے بتایا کہ نہیں صرف ان سے جدا ہو ، ان کے قریب نہ جاؤ رے دونوں ساتھیوںکو ( جنہوں نے میری طرح معذرت کی تھی ) بھی یہی حکم آپ نے بھیجا تھا ۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اب اپنے میکے چلی جاؤ اور اس وقت تک وہیں رہو جب تک اللہ تعالیٰ اس معاملہ کا کوئی فیصلہ نہ کردے ۔ کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہلال بن امیہ ( جن کا مقاطعہ ہواتھا ) کی بیوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیںاور عرض کی یا رسول اللہ ! ہلال بن امیہ بہت ہی بوڑھے اور کمزور ہیں ، ان کے پاس کوئی خادم بھی نہیں ہے ، کیا اگرمیں ان کی خدمت کردیاکروںتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسندفرمائیں گے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صرف وہ تم سے صحبت نہ کریں ۔ انھوں نے عرض کی ۔ خداکی قسم ! وہ تو کسی چیز کے لیے حرکت بھی نہیں کرسکتے ۔ جب سے یہ خفگی ان پر ہوئی ہے وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ان کے آنسو تھمنے میں نہیں آتے ۔ میرے گھر کے بعض لوگوں نے کہا کہ جس طرح ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کو ان کی خدمت کرتے رہنے کی اجازت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دی ہے ، آپ بھی اسی طرح کی اجازت حضور اسے لے لیجئے ۔ میں نے کہا نہیں ، خدا کی قسم ! میں اس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہیں لوں گا ، میں جوان ہوں ، معلوم نہیں جب سے اجازت لےنے جا ؤ ں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرمائیں ۔ اس طرح دس دن اور گزر گئے اور جب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بات چیت کر نے کی مما نعت فرمائی تھی اس کے پچاس دن پورے ہوگئے ۔ پچاسویں رات کی صبح کو جب میں فجر کی نما ز پڑھ چکا اور اپنے گھر کے چھت پر بیٹھا ہوا تھا ، اس طرح جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے ، میرا دم گھٹا جارہا تھا اور زمین اپنی تمام وسعتوں کے باوجود میرے لیے تنگ ہوتی جارہی تھی کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی ، جبل سلع پر چڑھ کر کوئی بلند آواز سے کہہ رہا تھا ، اے کعب بن مالک ! تمہیں بشارت ہو ۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ سنتے ہی میں سجدے میں گر پڑا اور مجھے یقین ہوگیا کہ اب فراخی ہوجائے گی ۔ فجر کی نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی بار گا ہ میں ہماری توبہ کی قبولیت کا اعلان کردیا تھا ۔ لوگ میرے یہاں بشارت دینے کے لیے آنے لگے اور میرے دو ساتھیوں کو بھی جاکر بشارت دی ۔ ایک صاحب ( زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ) اپنا گھوڑا دوڑا ئے آرہے تھے ، ادھر قبیلہ اسلم کے ایک صحابی نے پہاڑی پر چڑھ کر ( آواز دی ) اور آواز گھوڑے سے زیادہ تیز تھی ۔ جن صحا بی نے ( سلع پہاڑی پر سے ) آواز دی تھی ، جب وہ میرے پاس بشارت دینے آئے تو اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس بشارت کی خوشی میں ، میں نے انہیں دے دئےے ۔ خدا کی قسم کہ اس وقت ان دوکپڑوں کے سوا ( دینے کے لائق ) اور میرے پاس کوئی چیز نہیں تھی ۔ پھرمیں نے ( ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے ) دوکپڑے مانگ کر پہنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، جوق درجوق لوگ مجھ سے ملاقات کرتے جاتے تھے اور مجھے توبہ کی قبولیت پر بشارت دیتے جاتے تھے ، کہتے تھے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کی قبولت مبارک ہو ۔ کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، آخرمیں مسجد میں داخل ہوا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے ۔ چاروں طرف صحابہ کا مجمع تھا ۔ طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ دوڑ کر میری طرف بڑھے اور مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارک باد دی ۔ خدا کی قسم ! ( وہاں موجود ) مہاجرین میں سے کوئی بھی ان کے سوا ، میرے آنے پر کھڑا نہیں ہوا ۔ طلحہ رضی اللہ عنہ کا یہ احسان میں کبھی نہیں بھولوں گا ۔ کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے فرمایا ، ( چہرہ مبارک خوشی اور مسرت دمک اٹھا تھا ) اس مبارک دن کے لیے تمہیں بشارت ہوجو تمہاری عمر کا سب سے مبارک دن ہے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! یہ بشارت آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ؟ فرمایا نہیں ، بلکہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بات پر خوش ہوتے تو چہرہ مبارک روشن ہوجاتاتھا ، ایسا جیسے چاند کاٹکڑا ہو ۔ آپ کی مسرت ہم توچہرہ مبارک سے سمجھ جاتے تھے ۔ پھر جب میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا تو عرض کیایا رسول اللہ ! اپنی توبہ کی قبولیت کی خوشی میں ، میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں صدقہ کردوں ؟ آپ نے فرمایالیکن کچھ مال اپنے پاس بھی رکھ لو ، یہ زیادہ بہتر ہے ۔ میں نے عرض کیا پھر میں خیبر کا حصہ اپنے پاس رکھ لوںگا ۔ پھر میں نے عرض کیا ، یارسول اللہ ! اللہ رتعالیٰ نے مجھے سچ بولنے کی وجہ سے نجات دی ۔ اب میں اپنی توبہ کی قبولیت کی خوشی میںیہ عہد کرتاہوں کہ جب تک زندہ رہوں گا سچ کے سوا اور کوئی بات زبان پر نہ لاؤںگا ۔ پس خدا کی قسم ! جب سے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ عہد کیا ، میں کسی ایسے مسلمان کو نہیں جانتا جسے اللہ نے سچ بولنے کی وجہ سے اتنانوازا ہو ، جتنی نوازشات اس کی مجھ پر سچ بولنے کی وجہ سے ہیں ۔ جب سے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ عہد کیا ، پھر آج تک کبھی جھوٹ کا ارادہ بھی نہیں کیا اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھے اس سے محفوظ رکھے گا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر آیت ( ہمارے بارے میں ) نازل کی تھی ۔ ” یقینا اللہ تعالیٰ نے نبی ، مہاجرین اور انصار کی توبہ قبول کی “ اس کے ارشاد ” وکونوا مع الصادقین “ تک خدا کی قسم ! اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کے لیے ہدایت کے بعد ، میری نظر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس سچ بولنے سے بڑھ کر اللہ کا مجھ پر اور کوئی انعام نہیں ہوا کہ میں نے جھوٹ نہیں بولا اور اس طرح اپنے کو ہلاک نہیں کیا ۔ جیسا کہ جھوٹ بولنے والے ہلاک ہوگئے تھے ۔ نزول وحی کے زمانہ میں جھوٹ بولنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے اتنی شدید وعید فرمائی جتنی شدید کسی دوسرے کے لیے نہیں فرمائی ہوگی ۔ فرمایا ہے (( سیحلفون باللہ لکم اذا انقلبتم )) ارشاد (( فان اللہ لایرضی عن القوم الفاسقین )) تک کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ۔ چنانچہ ہم تین ، ان لوگوں کے معاملے سے جدارہے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قسم کھالی تھی اور آپ نے ان کی بات مان بھی لی تھی ، ان سے بیعت بھی لی تھی اور ان کے لیے طلب مغفرت بھی فرمائی تھی ۔ ہمارا معاملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑدیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے خود اس کا فیصلہ فرمایاتھا ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (( وعلی الثلاثۃ الذین خلفوا )) سے یہی مراد ہے کہ ہمار ا مقدمہ ملتوی رکھا گیا اور ہم ڈھیل میں ڈال دئےے گئے ۔ یہ نہیں مراد ہے کہ جہاد سے پیچھے رہ گئے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوںکے پیچھے رہے جنہوں نے قسمیں کھاکر اپنے عذر بیا ن کئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذر قبول کر لیے ۔
تشریح :
روایت میں مذکورہ مقام ” حجر “ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود کی بستی کانام ہے۔ یہ وہی قوم ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا عذاب زلزلہ شدید دھماکوں اور بجلی کی کڑک کی صورت میں نازل ہوتھا ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ تبوک کے لیے تشریف لے جارہے تھے تو یہ مقام راستے میں پڑا تھا۔ حجر ، شام اور مدینہ کے درمیان ایک بستی ہے۔
روایت میں مذکورہ مقام ” حجر “ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود کی بستی کانام ہے۔ یہ وہی قوم ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا عذاب زلزلہ شدید دھماکوں اور بجلی کی کڑک کی صورت میں نازل ہوتھا ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ تبوک کے لیے تشریف لے جارہے تھے تو یہ مقام راستے میں پڑا تھا۔ حجر ، شام اور مدینہ کے درمیان ایک بستی ہے۔