‌صحيح البخاري - حدیث 4416

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ تَبُوكَ وَهِيَ غَزْوَةُ العُسْرَةِ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ شُعْبَةَ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا فَقَالَ أَتُخَلِّفُنِي فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ قَالَ أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْحَكَمِ سَمِعْتُ مُصْعَبًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4416

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: غزوہ تبوک کا بیان ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن سمیر قفان نے بیان کیا ، ان سے شعبہ نے ، ان سے حکم بن عتبہ نے ، ان سے مصعب بن سعد نے اور ان سے ان کے والد نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا ۔ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جارہے ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہوکہ میرے لیے تم ایسے ہوجیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے ۔ لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔ اور ابو داؤد طیالسی نے اس حدیث کو یوں بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے حکم بن عتبہ نے اور انہوں نے کہا میں نے مصعب سے سنا ۔
تشریح : غزوئہ تبوک کی وجہ یہ ہوئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی تھی کہ روم کے نصاریٰ مسلمانوں سے لڑنے کی تیاری کررہے ہیں اور عرب کے بھی کئی قبائل لخم جذام وغیر ہ کو وہ اپنے ساتھ ملارہے ہیں ۔ یہ خبر سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پیش قدمی کرنے کا فیصلہ فرمایا تاکہ نصاریٰ کو مسلمانوں کی تیاریوں کا علم ہوجائے اور وہ خود لڑائی کا خیال چھوڑ دیں اور جنگ نہ ہونے پائے ۔ اس جنگ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دو سو اونٹ معہ سامان کے مسلمانوں کے لیے پیش فرمائے تھے ۔ جس پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہوکر فرمایا کہ اب عثمان رضی اللہ عنہ جیسے بھی عمل کریں ان کے لیے رضائے الٰہی واجب ہوچکی ہے ۔ روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بھی ذکر ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے لیے ایسا ہی معاون قرار دیا جیسے حضرت ہاروں علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معاون تھے۔ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلافصل پر دلیل پکڑنا غلط ہے ۔ کیونکہ حضرت ہارون علیہ السلام کو موسوی خلافت نہیں ملی ۔ وہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے ہی انتقال کرچکے تھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے صرف طور پر جاتے وقت حضرت ہاروں علیہ السلام کو اپنا جانشین بنایا تھا ۔ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ تبوک میں جاتے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا ۔ بس اس مماثلت کا تعلق صرف اسی حد تک ہے۔ ا س ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی یہ نہیں سمجھا تھا جو شیعہ حضرات نے سمجھا ہے۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ ایسا سمجھتے تو خود کیونکر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دست حق پر بیعت کرکے ان کو خلیفہ برحق سمجھتے ۔ حدیث ھذا سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ۔ آپ کے بعد رسالت ونبو ت کا سلسلہ قیامت تک کے لیے بند ہوچکا ہے۔ اب جو بھی کسی بھی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا دجال ہے، خواہ وہ کیسی ہی اسلام دوستی کی بات کرے ، وہ غدار ہے مکار ہے ۔ تخت نبوت کا باغی ہے۔ ہر کلمہ گو مسلمان کا فرض ہے کہ ایسے مدعی کا منہ توڑمقابلہ کر کے ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے اپنی پوری پوری جد وجہد کرے ۔ اس دور آخر میں فرقہ قادیانیہ ایک ایسا ہی باطل پر ست فرقہ ہے جو پنجاب کے قصبہ قادیان کے ایک شخص مسمیٰ مرزاغلام احمد کے لیے نبوت کا مدعی ہے اور جس نے دجل ومکر پھیلانے میں ہو بہو دجال کی نقل کی ہے۔ غزوئہ تبوک کی وجہ یہ ہوئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی تھی کہ روم کے نصاریٰ مسلمانوں سے لڑنے کی تیاری کررہے ہیں اور عرب کے بھی کئی قبائل لخم جذام وغیر ہ کو وہ اپنے ساتھ ملارہے ہیں ۔ یہ خبر سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پیش قدمی کرنے کا فیصلہ فرمایا تاکہ نصاریٰ کو مسلمانوں کی تیاریوں کا علم ہوجائے اور وہ خود لڑائی کا خیال چھوڑ دیں اور جنگ نہ ہونے پائے ۔ اس جنگ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دو سو اونٹ معہ سامان کے مسلمانوں کے لیے پیش فرمائے تھے ۔ جس پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہوکر فرمایا کہ اب عثمان رضی اللہ عنہ جیسے بھی عمل کریں ان کے لیے رضائے الٰہی واجب ہوچکی ہے ۔ روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بھی ذکر ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے لیے ایسا ہی معاون قرار دیا جیسے حضرت ہاروں علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معاون تھے۔ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلافصل پر دلیل پکڑنا غلط ہے ۔ کیونکہ حضرت ہارون علیہ السلام کو موسوی خلافت نہیں ملی ۔ وہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے ہی انتقال کرچکے تھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے صرف طور پر جاتے وقت حضرت ہاروں علیہ السلام کو اپنا جانشین بنایا تھا ۔ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ تبوک میں جاتے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا ۔ بس اس مماثلت کا تعلق صرف اسی حد تک ہے۔ ا س ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی یہ نہیں سمجھا تھا جو شیعہ حضرات نے سمجھا ہے۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ ایسا سمجھتے تو خود کیونکر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دست حق پر بیعت کرکے ان کو خلیفہ برحق سمجھتے ۔ حدیث ھذا سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ۔ آپ کے بعد رسالت ونبو ت کا سلسلہ قیامت تک کے لیے بند ہوچکا ہے۔ اب جو بھی کسی بھی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا دجال ہے، خواہ وہ کیسی ہی اسلام دوستی کی بات کرے ، وہ غدار ہے مکار ہے ۔ تخت نبوت کا باغی ہے۔ ہر کلمہ گو مسلمان کا فرض ہے کہ ایسے مدعی کا منہ توڑمقابلہ کر کے ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے اپنی پوری پوری جد وجہد کرے ۔ اس دور آخر میں فرقہ قادیانیہ ایک ایسا ہی باطل پر ست فرقہ ہے جو پنجاب کے قصبہ قادیان کے ایک شخص مسمیٰ مرزاغلام احمد کے لیے نبوت کا مدعی ہے اور جس نے دجل ومکر پھیلانے میں ہو بہو دجال کی نقل کی ہے۔