كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ تَبُوكَ وَهِيَ غَزْوَةُ العُسْرَةِ صحيح حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَرْسَلَنِي أَصْحَابِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُهُ الْحُمْلَانَ لَهُمْ إِذْ هُمْ مَعَهُ فِي جَيْشِ الْعُسْرَةِ وَهِيَ غَزْوَةُ تَبُوكَ فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّ أَصْحَابِي أَرْسَلُونِي إِلَيْكَ لِتَحْمِلَهُمْ فَقَالَ وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُكُمْ عَلَى شَيْءٍ وَوَافَقْتُهُ وَهُوَ غَضْبَانُ وَلَا أَشْعُرُ وَرَجَعْتُ حَزِينًا مِنْ مَنْعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمِنْ مَخَافَةِ أَنْ يَكُونَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ عَلَيَّ فَرَجَعْتُ إِلَى أَصْحَابِي فَأَخْبَرْتُهُمْ الَّذِي قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أَلْبَثْ إِلَّا سُوَيْعَةً إِذْ سَمِعْتُ بِلَالًا يُنَادِي أَيْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ فَأَجَبْتُهُ فَقَالَ أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُوكَ فَلَمَّا أَتَيْتُهُ قَالَ خُذْ هَذَيْنِ الْقَرِينَيْنِ وَهَذَيْنِ الْقَرِينَيْنِ لِسِتَّةِ أَبْعِرَةٍ ابْتَاعَهُنَّ حِينَئِذٍ مِنْ سَعْدٍ فَانْطَلِقْ بِهِنَّ إِلَى أَصْحَابِكَ فَقُلْ إِنَّ اللَّهَ أَوْ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُكُمْ عَلَى هَؤُلَاءِ فَارْكَبُوهُنَّ فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهِمْ بِهِنَّ فَقُلْتُ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُكُمْ عَلَى هَؤُلَاءِ وَلَكِنِّي وَاللَّهِ لَا أَدَعُكُمْ حَتَّى يَنْطَلِقَ مَعِي بَعْضُكُمْ إِلَى مَنْ سَمِعَ مَقَالَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَظُنُّوا أَنِّي حَدَّثْتُكُمْ شَيْئًا لَمْ يَقُلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا لِي وَاللَّهِ إِنَّكَ عِنْدَنَا لَمُصَدَّقٌ وَلَنَفْعَلَنَّ مَا أَحْبَبْتَ فَانْطَلَقَ أَبُو مُوسَى بِنَفَرٍ مِنْهُمْ حَتَّى أَتَوْا الَّذِينَ سَمِعُوا قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْعَهُ إِيَّاهُمْ ثُمَّ إِعْطَاءَهُمْ بَعْدُ فَحَدَّثُوهُمْ بِمِثْلِ مَا حَدَّثَهُمْ بِهِ أَبُو مُوسَى
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: غزوہ تبوک کا بیان
مجھ سے محمد بن علاءنے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا ، ان سے برید بن عبد اللہ بن ابی بردہ نے اور ان سے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ مجھے میرے ساتھیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجاکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے لیے سواری کے جانور وں کی درخواست کروں ۔ وہ لوگ آپ کے ساتھ جیش عسرت ( یعنی غزوئہ تبوک ) میں شریک ہونا چاہتے تھے ۔ میں نے عرض کیا ، یارسول اللہ ! میرے ساتھیوں نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ آپ ان کے لیے سواری کے جانوروں کا انتظام کرا دیں ۔ آپ نے فرمایا ، خدا کی قسم ! میں تم کو سواری کے جانور نہیں دے سکتا ۔ میں جب آپ کی خدمت میں حاضر ہواتھا تو آپ غصہ میں تھے اور میں اسے معلوم نہ کرسکا تھا ۔ آپ اکے انکارسے میں بہت غمگین واپس ہوا ۔ یہ خوف بھی تھا کہ کہیں آپ سواری مانگنے کی وجہ سے خفانہ ہوگئے ہوں ۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی خبر دی ، لیکن ابھی کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ کی آواز سنی ، وہ پکار رہے تھے ، اے عبد اللہ بن قیس ! میں نے جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں بلا رہے ہیں ۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ یہ دوجوڑے اور یہ دو جوڑے اونٹ کے لے جاؤ ۔ آپ نے چھ اونٹ عنایت فرمائے ۔ ان اونٹوں کو آپ نے اسی وقت سعد رضی اللہ عنہ سے خریدا تھا اور فرمایا کہ انہیں اپنے ساتھیوں کو دے دو اورا نہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے یا آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری سواری کے لیے انہیں دیا ہے ، ان پر سوار ہوجاؤ ۔ میں ان اونٹوں کو لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور ان سے میں نے کہا کہ آنحضورانے تمہاری سواری کے لیے یہ عنایت فرمائے ہیں لیکن خدا کی قسم ! کہ اب تمہیں ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس چلنا پڑے گا ، جنہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاانکا ر فرمانا سنا تھا ، کہیں تم یہ خیا ل نہ کر بیٹھو کہ میں نے تم سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے متعلق غلط بات کہہ دی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری سچائی میں ہمیں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن اگر آپ کا اصرار ہے تو ہم ایسا بھی کرلیں گے ۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ ان میں سے چند لوگوں کو لے کر ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے جنہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کاوہ ارشاد سنا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تودینے سے انکا ر کیا تھا لیکن پھر عنایت فرمایا ۔ ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کی تھی ۔
تشریح :
روایت میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواریاں مانگنے کا ذکر ہے۔ اتفاق سے اس وقت سواریاں موجودنہ تھیں ۔ لہٰذا آنحضر ت انے انکار فرمادیا ۔ تھوڑی دیر بعد سواریاں مہیا ہوگئیں اور رسول پاک انے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو واپس بلوا کر پانچ چھ اونٹ ان کو دلوا دئیے ۔ اب ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ ڈرہواکہ میرے ساتھی مجھ کو جھوٹا نہ سمجھ بیٹھےں کہ ابھی تو اس نے یہ کہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سواری نہیں دے رہے ہیں اور ابھی سواریاں لے کر آگیا ۔ اس لیے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے یہ کہا کہ میرے ہمراہ چل کر میری بات کی تصدیق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کرلو تاکہ میری بات کاتم کو یقین ہوجائے ۔ چنانچہ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے اصرار شدید پر چھ آدمی خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور انہوں نے ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے بیان کی تصدیق کی۔ حضرت ابو موسیٰ عبد اللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ مشہور مہاجر صحابی ہیں ۔ جنہوں نے حبشہ کی طرف بھی ہجرت کی تھی اور یہ اہل سفینہ کے ساتھ مدینہ آئے تھے جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں تھے۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے 20ھ میں ان کو بصرہ کا حاکم مقرر کیا اور خلافت عثمانی میں ان کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا گیا ۔ جب ہی یہ مکہ آگئے تھے ۔ 52ھ میں مکہ ہی میں ان کا انتقال ہوا، رضی اللہ عنہ وارضاہ۔
روایت میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواریاں مانگنے کا ذکر ہے۔ اتفاق سے اس وقت سواریاں موجودنہ تھیں ۔ لہٰذا آنحضر ت انے انکار فرمادیا ۔ تھوڑی دیر بعد سواریاں مہیا ہوگئیں اور رسول پاک انے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو واپس بلوا کر پانچ چھ اونٹ ان کو دلوا دئیے ۔ اب ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ ڈرہواکہ میرے ساتھی مجھ کو جھوٹا نہ سمجھ بیٹھےں کہ ابھی تو اس نے یہ کہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سواری نہیں دے رہے ہیں اور ابھی سواریاں لے کر آگیا ۔ اس لیے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے یہ کہا کہ میرے ہمراہ چل کر میری بات کی تصدیق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کرلو تاکہ میری بات کاتم کو یقین ہوجائے ۔ چنانچہ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے اصرار شدید پر چھ آدمی خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور انہوں نے ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے بیان کی تصدیق کی۔ حضرت ابو موسیٰ عبد اللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ مشہور مہاجر صحابی ہیں ۔ جنہوں نے حبشہ کی طرف بھی ہجرت کی تھی اور یہ اہل سفینہ کے ساتھ مدینہ آئے تھے جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں تھے۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے 20ھ میں ان کو بصرہ کا حاکم مقرر کیا اور خلافت عثمانی میں ان کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا گیا ۔ جب ہی یہ مکہ آگئے تھے ۔ 52ھ میں مکہ ہی میں ان کا انتقال ہوا، رضی اللہ عنہ وارضاہ۔