كِتَابُ المَغَازِي بَابُ حَجَّةِ الوَدَاعِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ وَأَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ فَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ أَوْ جَمَعَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَلَمْ يَحِلُّوا حَتَّى يَوْمِ النَّحْرِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ وَقَالَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنَا مَالِكٌ مِثْلَهُ
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: حجۃ الوداع کابیان
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا ، ان سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے ابو الاسود محمد بن عبد الرحمن بن نوفل نے ، ان سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم جب رسول اللہ اکے ساتھ ( حج کے لیے ) نکلے تو کچھ لوگ ہم میں سے عمرہ کا احرا م باندھے ہوئے تھے ، کچھ حج کا اور کچھ عمرہ اور حج دونوں کا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حج کا احرا م باندھا تھا ۔ جو لوگ حج کا احرام باندھے ہوئے تھے یا جنہوں نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا ، وہ قربانی کے دن حلال ہوئے تھے ۔
تشریح :
سفر حج میں میقات پرپہنچنے کے بعد حاجی کو اختیار ہے کہ وہ تین قسم کی نیت میں سے چاہے جس نیت کے ساتھ احرام باندھے ۔
حج تمتع کی نیت سے احرام باندھنا بہتر ہے ۔ جس میں حاجی مکہ شریف پہنچ کر فورا ہی عمرہ کر کے احرام کھول دیتا ہے اور پھر آٹھویں ذی الحجہ کو از سر نو حج کا احرام باندھ کرمنیٰ کا سفر شرو ع کرتا ہے۔ اس احرام میں حاجی کے لیے ہر قسم کی سہولتیں ہیں ۔ حج قران جس میں عمرہ پھر حج ایک ہی احرام سے کیا جاتا ہے اور خالی حج ہی کی نیت کر ناحج افراد کہلاتاہے۔
ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ، کہاہم کو امام مالک نے خبر دی ، پھر یہی حدیث بیان کی ۔ اس میں یوں ہے کہ رسول اللہ ا کے ساتھ حجۃ الوداع ( کے لیے ہم نکلے ) ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، ہم سے امام مالک نے بیان کیا ، اسی طرح جو پہلے مذکور ہوا ۔
سفر حج میں میقات پرپہنچنے کے بعد حاجی کو اختیار ہے کہ وہ تین قسم کی نیت میں سے چاہے جس نیت کے ساتھ احرام باندھے ۔
حج تمتع کی نیت سے احرام باندھنا بہتر ہے ۔ جس میں حاجی مکہ شریف پہنچ کر فورا ہی عمرہ کر کے احرام کھول دیتا ہے اور پھر آٹھویں ذی الحجہ کو از سر نو حج کا احرام باندھ کرمنیٰ کا سفر شرو ع کرتا ہے۔ اس احرام میں حاجی کے لیے ہر قسم کی سہولتیں ہیں ۔ حج قران جس میں عمرہ پھر حج ایک ہی احرام سے کیا جاتا ہے اور خالی حج ہی کی نیت کر ناحج افراد کہلاتاہے۔
ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ، کہاہم کو امام مالک نے خبر دی ، پھر یہی حدیث بیان کی ۔ اس میں یوں ہے کہ رسول اللہ ا کے ساتھ حجۃ الوداع ( کے لیے ہم نکلے ) ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، ہم سے امام مالک نے بیان کیا ، اسی طرح جو پہلے مذکور ہوا ۔