كِتَابُ المَغَازِي بَابُ حَجَّةِ الوَدَاعِ صحيح أَلَا إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ قَالُوا نَعَمْ قَالَ اللَّهُمَّ اشْهَدْ ثَلَاثًا وَيْلَكُمْ أَوْ وَيْحَكُمْ انْظُرُوا لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: حجۃ الوداع کابیان
خوب سن لوکہ اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے آپس کے خون اور اموال اسی طرح حرام کئے ہیں جیسے اس دن کی حرمت اس شہر اور اس مہینے میں ہے ۔ ہاں بولو ! کیا میں نے پہنچا دیا ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم بولے کہ آپ نے پہنچا دیا ۔ فرمایا ، اے اللہ ! تو گواہ رہیو ، تین مرتبہ آپ نے یہ جملہ دہرایا ۔ افسوس ! ( آپ نے ویلکم فرمایا ویحکم ، راوی کو شک ہے ) دیکھو ، میرے بعد کا فرنہ بن جانا کہ ایک دوسرے ( مسلمان ) کی گردن مارنے لگ جاؤ ۔
تشریح :
اس طور پر کہ کافروں کو چھوڑ کر آپس ہی میں لڑنے لگو۔ ظاہر حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ مسلمان کا بلاوجہ شرعی خون کرنا کفر ہے ۔ ابن عبا س رضی اللہ عنہما کا یہی قول ہے لیکن دوسرے علماءنے تاویل کی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کافروں کا سا فعل نہ کرو۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وداع کے بارے میں شک میں رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وداع مراد ہے یا مکہ کا وداع مراد ہے ۔ مگر بعد میں معلوم ہوا کہ خود آپ کاوداع مراد تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر چند دنوں بعد ہی انتقال فرماگئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خطبہ بھی حجۃ الوداع کا خطبہ ہے۔
اس طور پر کہ کافروں کو چھوڑ کر آپس ہی میں لڑنے لگو۔ ظاہر حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ مسلمان کا بلاوجہ شرعی خون کرنا کفر ہے ۔ ابن عبا س رضی اللہ عنہما کا یہی قول ہے لیکن دوسرے علماءنے تاویل کی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کافروں کا سا فعل نہ کرو۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وداع کے بارے میں شک میں رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وداع مراد ہے یا مکہ کا وداع مراد ہے ۔ مگر بعد میں معلوم ہوا کہ خود آپ کاوداع مراد تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر چند دنوں بعد ہی انتقال فرماگئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خطبہ بھی حجۃ الوداع کا خطبہ ہے۔