كِتَابُ المَغَازِي بَابُ حَجَّةِ الوَدَاعِ صحيح حَدَّثَنِي بَيَانٌ حَدَّثَنَا النَّضْرُ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَيْسٍ قَالَ سَمِعْتُ طَارِقًا عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَطْحَاءِ فَقَالَ أَحَجَجْتَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ كَيْفَ أَهْلَلْتَ قُلْتُ لَبَّيْكَ بِإِهْلَالٍ كَإِهْلَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ طُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ حِلَّ فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَأَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَيْسٍ فَفَلَتْ رَأْسِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: حجۃ الوداع کابیان
مجھ سے بیان بن عمرو نے بیان کیا ، کہا ہم سے نضر بن شمیل نے بیان کیا ، انہیں شعبہ نے خبر دی ، ان سے قیس بن مسلم نے بیان کیا ، انہوں نے طارق بن شہاب سے سنا اور ان سے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم وادی بطحاء ( سنگریزی زمین ) میں قیام کئے ہوئےتھے ۔ آپ نے پوچھا تم نے حج کا احرام باندھ لیا ؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں ۔ دریافت فرمایا ، احرام کس طرح باندھا ہے ؟ عرض کیا ( اس طرح ) کہ میں بھی اسی طرح احرام باندھتا ہوں جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھاہے ۔ آپ نے فرمایا ، پہلے ( عمرہ کرنے کے لیے ) بیت اللہ کا طواف کر ، پھر صفااور مروہ کی سعی کر ، پھر حلال ہوجا ۔ چنانچہ میں بیت اللہ کا طواف اور صفااور مروہ کی سعی کرکے قبیلہ قیس کی ایک عورت کے گھر آیا اور انہوں نے میرے سرسے جوئیں نکالیں ۔
تشریح :
اسی قسم کے احرام کو حج تمتع کا احرام کہا جاتا ہے۔ آپ کا احرام حج قران کا تھا مگر ان کے لیے آپ نے حج تمتع ہی کو آسان خیال فرمایا ۔ اب بھی حج تمتع ہی بہتر ہے کیونکہ اس میں حاجی کو آسانی ہوجاتی ہے۔ بعض لوگوں نے حج بدل والوں کے لیے حج قران کی شرط لگائی ہے جس کی دلیل نہیں ملی، واللہ اعلم با لصواب۔
اسی قسم کے احرام کو حج تمتع کا احرام کہا جاتا ہے۔ آپ کا احرام حج قران کا تھا مگر ان کے لیے آپ نے حج تمتع ہی کو آسان خیال فرمایا ۔ اب بھی حج تمتع ہی بہتر ہے کیونکہ اس میں حاجی کو آسانی ہوجاتی ہے۔ بعض لوگوں نے حج بدل والوں کے لیے حج قران کی شرط لگائی ہے جس کی دلیل نہیں ملی، واللہ اعلم با لصواب۔