كِتَابُ المَغَازِي بَابُ قِصَّةِ وَفْدِ طَيِّئٍ وَحَدِيثُ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ أَتَيْنَا عُمَرَ فِي وَفْدٍ فَجَعَلَ يَدْعُو رَجُلًا رَجُلًا وَيُسَمِّيهِمْ فَقُلْتُ أَمَا تَعْرِفُنِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ بَلَى أَسْلَمْتَ إِذْ كَفَرُوا وَأَقْبَلْتَ إِذْ أَدْبَرُوا وَوَفَيْتَ إِذْ غَدَرُوا وَعَرَفْتَ إِذْ أَنْكَرُوا فَقَالَ عَدِيٌّ فَلَا أُبَالِي إِذًا
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: قبیلہ طے کے وفد اورعدی بن حاتم ؓ کاقصہ
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبد الملک بن عمیر نے بیان کیا ، ان سے عمروبن حریث نے اور ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ( ان کی دور خلافت میں ) ایک وفد کی شکل میں آئے ۔ وہ ایک ایک شخص کو نام لے لے کر بلاتے جاتے تھے ) میں نے ان سے کہا کیا آپ مجھے پہچانتے نہیں ؟ اے امیر المومنین ! فرمایا کیا تمہیں بھی نہیں پہچانوں گا ، تم اس وقت اسلام لائے جب یہ سب کفر پر قائم تھے ۔ تم نے اس وقت توجہ کی جب یہ سب منہ موڑ رہے تھے ۔ تم نے اس وقت وفا کی جب یہ سب بے وفائی کر رہے تھے اور اس وقت پہچانا جب ان سب نے انکا ر کیا تھا ۔ عدی رضی اللہ عنہ نے کہا بس اب مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔
تشریح :
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ قبیلہ طے میں سے تھے ۔ ان کے باپ وہی حاتم طائی ہیں جن کا نام سخاوت میں مشہور عالم ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عد ی رضی اللہ عنہ نے اپنا تعارف کرایا جس کا جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ دیا جو روایت میں مذکور ہے۔ اس پر عدی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب آپ میرا حال جانتے ہیں اور میری قدر پہچانتے ہیں تو اب مجھ کو کوئی اس کا رنج نہیں ہے کہ پہلے اور لوگوں کو بلایا مجھ کو نہیں بلایا ۔ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ پہلے نصرانی تھے، ان کی بہن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوار پکڑ لائے ۔ آپ نے ان کو خاندانی اعزاز کی بنا پر مفت آزاد کر دیا۔ اس کے بعد بہن کے کہنے پر عدی بن حا تم رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہوگئے۔
حضرت حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے عدی بن حاتم کا نسب نامہ سبا تک پہنچایا ہے جو کسی زمانہ میں یمن کی ملکہ تھی ۔ آگے حافظ صاحب فرماتے ہیں ۔ اخرج مسلم من وجہ آخر عن عدی بن حاتم قال اتیت عمر فقال ان اول صدقۃ بیضت وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ووجوہ اصحابہ صدقۃ طی جئت بہا الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وزاد احمد فی اولہ اتیت عمر فی اناس من قومی فجعل یعرض عنی فا ستقبلتہ فقلت اتعرفنی فذکر نحو ما اوردہ البخاری ونحو ما اوردہ مسلم جمیعا ( فتح ) یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ سب سے پہلا صدقہ جسے دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگ گیا وہ قبیلہ طے کا پیش کردہ تھا جسے میں خود لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوا تھا۔ امام احمد نے اس کے اول میں یہ زیادہ کیا ہے کہ میں اپنی قوم میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو آپ نے مجھ سے منہ پھیر لیا پھر میں آپ کے سامنے ہوگیا ۔ اور میں نے وہ کہا جو روایت میں مذکو ر ہے۔ جسے بخاری اور مسلم ہردو نے وارد کیا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا منہ پھیر نا صرف اس لیے تھا کہ یہ حضرت تو میرے جانے پہچانے ہیں ۔ اس وقت نوواردوں کی طرف توجہ ضروری ہے۔ اس سے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نگاہوں میں بڑی وقعت ثابت ہوئی ۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔ حضرت عدی بن حاتم شعبان 7ھ میں خدمت نبوی میں آئے اور بعد میں کوفہ میں سکونت اختیار کی ۔ جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے ۔ 67ھ میں کو فہ میں بعمر ایک سو بیس سال انتقال فرمایا۔ ان کا باپ حاتم طائی سخاوت کے لیے مشہور زمانہ گذرا ہے۔ لفظ طائی قبیلہ طے کی نسبت ہے۔
خاتمہ : بعونہ تعالی پچھلے سال سری نگر میں 1972۔ 8۔25کو اس پارے کی تسوید کے لیے قلم ہاتھ میں لیا تھا سا ل بھر سفرو حضر میں اس خدمت کو انجام دیا گیا اور آج غریب خانہ پر قیام کی حالت میں اس کی تسوید کا کام مکمل کررہا ہوں ۔ بلا مبالغہ ترجمہ ومتن وتشریحا ت کو بڑے غور و فکر کے بعد قید کتابت میں لایا گیا ہے۔ اور بعد میں بکرات ومرات ان پر نظر ڈالی گئی ہے پھر بھی سہو اور لغزش کاامکان ہے جس کے لیے میں علماءفن وماہرین کی طرف سے اصلاح کے لیے بصد شکریہ منتظرر رہوں گا ۔ قارئین کرام وہمدرد ان عظام سے بصد ادب گذارش ہے کہ وہ بوقت مطالعہ مجھ نا چیز کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں تاکہ یہ خدمت مکمل ہوسکے جو میری زندگی کا مقصد وحید ہے۔ جسے میں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ جن حضرات کی ہمدردیاں اور دعائیں میرے شامل حال ہیں ، ان سب کا بہت بہت مشکور ہوں اوران سب کے لیے دعا گوہوں کہ اللہ پاک اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ کلام کی برکت سے ہم سب کو دونوں جہانوں کی بر کتوں سے نوازے ۔ خاص طور پر اس دنیا سے جانے کے بعد اس صدقہ جاریہ کو ہم سب کے لیے باعث نجات بنائے اور قیامت کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کبری ہم سب کو نصیب کرے۔
یا اللہ ! جس طرح یہاں تک تونے مجھکو پہنچایا ہے۔ اسی طرح سے آخر تک تو ہم کو اس خدمت کی تکمیل کی توفیق دی جیو اور قلم کو لغزش سے بچائیو کہ سب کچھ تیرے ہی اختیار میں ہے۔
وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم وصلی اللہ علی خیر خلقہ محمد وعلی الہ واصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین
خادم حدیث نبوی
محمد داؤد راز ولد عبداللہ السلفی
موضع رہپوہ ڈاک خانہ پنگواں ضلع گوڑ گاؤں ( ہریانہ ) ( 30-12-73 )
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ قبیلہ طے میں سے تھے ۔ ان کے باپ وہی حاتم طائی ہیں جن کا نام سخاوت میں مشہور عالم ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عد ی رضی اللہ عنہ نے اپنا تعارف کرایا جس کا جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ دیا جو روایت میں مذکور ہے۔ اس پر عدی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب آپ میرا حال جانتے ہیں اور میری قدر پہچانتے ہیں تو اب مجھ کو کوئی اس کا رنج نہیں ہے کہ پہلے اور لوگوں کو بلایا مجھ کو نہیں بلایا ۔ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ پہلے نصرانی تھے، ان کی بہن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوار پکڑ لائے ۔ آپ نے ان کو خاندانی اعزاز کی بنا پر مفت آزاد کر دیا۔ اس کے بعد بہن کے کہنے پر عدی بن حا تم رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہوگئے۔
حضرت حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے عدی بن حاتم کا نسب نامہ سبا تک پہنچایا ہے جو کسی زمانہ میں یمن کی ملکہ تھی ۔ آگے حافظ صاحب فرماتے ہیں ۔ اخرج مسلم من وجہ آخر عن عدی بن حاتم قال اتیت عمر فقال ان اول صدقۃ بیضت وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ووجوہ اصحابہ صدقۃ طی جئت بہا الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وزاد احمد فی اولہ اتیت عمر فی اناس من قومی فجعل یعرض عنی فا ستقبلتہ فقلت اتعرفنی فذکر نحو ما اوردہ البخاری ونحو ما اوردہ مسلم جمیعا ( فتح ) یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ سب سے پہلا صدقہ جسے دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگ گیا وہ قبیلہ طے کا پیش کردہ تھا جسے میں خود لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوا تھا۔ امام احمد نے اس کے اول میں یہ زیادہ کیا ہے کہ میں اپنی قوم میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو آپ نے مجھ سے منہ پھیر لیا پھر میں آپ کے سامنے ہوگیا ۔ اور میں نے وہ کہا جو روایت میں مذکو ر ہے۔ جسے بخاری اور مسلم ہردو نے وارد کیا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا منہ پھیر نا صرف اس لیے تھا کہ یہ حضرت تو میرے جانے پہچانے ہیں ۔ اس وقت نوواردوں کی طرف توجہ ضروری ہے۔ اس سے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نگاہوں میں بڑی وقعت ثابت ہوئی ۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔ حضرت عدی بن حاتم شعبان 7ھ میں خدمت نبوی میں آئے اور بعد میں کوفہ میں سکونت اختیار کی ۔ جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے ۔ 67ھ میں کو فہ میں بعمر ایک سو بیس سال انتقال فرمایا۔ ان کا باپ حاتم طائی سخاوت کے لیے مشہور زمانہ گذرا ہے۔ لفظ طائی قبیلہ طے کی نسبت ہے۔
خاتمہ : بعونہ تعالی پچھلے سال سری نگر میں 1972۔ 8۔25کو اس پارے کی تسوید کے لیے قلم ہاتھ میں لیا تھا سا ل بھر سفرو حضر میں اس خدمت کو انجام دیا گیا اور آج غریب خانہ پر قیام کی حالت میں اس کی تسوید کا کام مکمل کررہا ہوں ۔ بلا مبالغہ ترجمہ ومتن وتشریحا ت کو بڑے غور و فکر کے بعد قید کتابت میں لایا گیا ہے۔ اور بعد میں بکرات ومرات ان پر نظر ڈالی گئی ہے پھر بھی سہو اور لغزش کاامکان ہے جس کے لیے میں علماءفن وماہرین کی طرف سے اصلاح کے لیے بصد شکریہ منتظرر رہوں گا ۔ قارئین کرام وہمدرد ان عظام سے بصد ادب گذارش ہے کہ وہ بوقت مطالعہ مجھ نا چیز کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں تاکہ یہ خدمت مکمل ہوسکے جو میری زندگی کا مقصد وحید ہے۔ جسے میں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ جن حضرات کی ہمدردیاں اور دعائیں میرے شامل حال ہیں ، ان سب کا بہت بہت مشکور ہوں اوران سب کے لیے دعا گوہوں کہ اللہ پاک اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ کلام کی برکت سے ہم سب کو دونوں جہانوں کی بر کتوں سے نوازے ۔ خاص طور پر اس دنیا سے جانے کے بعد اس صدقہ جاریہ کو ہم سب کے لیے باعث نجات بنائے اور قیامت کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کبری ہم سب کو نصیب کرے۔
یا اللہ ! جس طرح یہاں تک تونے مجھکو پہنچایا ہے۔ اسی طرح سے آخر تک تو ہم کو اس خدمت کی تکمیل کی توفیق دی جیو اور قلم کو لغزش سے بچائیو کہ سب کچھ تیرے ہی اختیار میں ہے۔
وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم وصلی اللہ علی خیر خلقہ محمد وعلی الہ واصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین
خادم حدیث نبوی
محمد داؤد راز ولد عبداللہ السلفی
موضع رہپوہ ڈاک خانہ پنگواں ضلع گوڑ گاؤں ( ہریانہ ) ( 30-12-73 )