كِتَابُ المَغَازِي بَابُ قِصَّةِ أَهْلِ نَجْرَانَ صحيح حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ الْحُسَيْنِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ جَاءَ الْعَاقِبُ وَالسَّيِّدُ صَاحِبَا نَجْرَانَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدَانِ أَنْ يُلَاعِنَاهُ قَالَ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ لَا تَفْعَلْ فَوَاللَّهِ لَئِنْ كَانَ نَبِيًّا فَلَاعَنَّا لَا نُفْلِحُ نَحْنُ وَلَا عَقِبُنَا مِنْ بَعْدِنَا قَالَا إِنَّا نُعْطِيكَ مَا سَأَلْتَنَا وَابْعَثْ مَعَنَا رَجُلًا أَمِينًا وَلَا تَبْعَثْ مَعَنَا إِلَّا أَمِينًا فَقَالَ لَأَبْعَثَنَّ مَعَكُمْ رَجُلًا أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ فَاسْتَشْرَفَ لَهُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ قُمْ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ فَلَمَّا قَامَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا أَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: نجران کے نصاریٰ کا قصہ
مجھ سے عباس بن حسین نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا ، ان سے اسرائیل نے ، ان سے ابو اسحاق نے ، ان سے صلہ بن زفر نے اور ان سے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نجران کے دو سردار عاقب اور سید ، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مباہلہ کرنے کے لیے آئے تھے لیکن ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا کہ ایسا نہ کروکیونکہ خدا کی قسم ! اگر یہ نبی ہوئے اور پھر بھی ہم نے ان سے مباہلہ کیا توہم پنپ نہیں سکتے اور نہ ہمارے بعد ہماری نسلیں رہ سکیں گی ، پھر ان دونوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جو کچھ آپ مانگیں ہم جزیہ دینے کے لیے تیا ر ہیں ۔ آپ ہمارے ساتھ کوئی امین بھیج دیجئے ، جو بھی آدمی ہمارے ساتھ بھیجیں وہ امین ہو نا ضروری ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ایک ایسا آدمی بھیجوں گا جو امانت دار ہوگا بلکہ پورا پورا امانت دار ہوگا ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر تھے ، آپ نے فرمایا ابو عبیدہ بن الجراح ! اٹھو ، جب وہ کھڑے ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اس امت کے امین ہیں ۔
تشریح :
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں وفی قصۃ اہل نجران من الفوائد ان اقرار الکافر با لنبوۃ فلا یدخل فی الاسلام حتی یلتزم احکا م الاسلام وفیہا جواز مجادلۃ اھل الکتاب وقد تجب اذا تعینت مصلحۃ وفیھا مشروعیۃ مباھلۃ المخالف اذا اصر بعد ظھور الحجۃ وقد دعا ابن عباس الی ذلک ثم الاوزاعی ووقع ذلک لجماعۃ من العلماءاومما عرف بالتجربۃ ان من باھل وکان مبطلارد تمضی علیہ سنۃ من یوم المباھلۃ ووقع لی ذلک مع شخص لبعض الملاحدۃ فلم یقم بعد ھا غیر شھرین وفیھا مصالحۃ اھل الذمۃ علی مایراہ الامام من اصناف المال وفیھا بعث الامام الرجل العالم الامین الی اھل الذمۃ فی مصلحۃ الاسلام وفیھا منقبۃ ظاہر ۃ لابی عبیدۃ بن الجراح رضی اللہ عنہ وقد ذکر ابن اسحاق ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعث علیا الی اھل نجران لیاتیہ بصدقاتہم وجزیتھم وھذہ القصۃ غیر قصۃ ابی عبیدۃ لان ابا عبیدۃ توجہ معھم فقبض مال الصلح ورجع وعلی ارسلہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد ذلک یقبض منھم مااستحق علیہم من الجزیۃ ویاخذ ممن اسلم منھم ماوجب علیہ من الصدقۃ واللہ اعلم ( فتح الباری )
حافط ابن حجر فرماتے ہیں کہ اہل نجران کے قصے میں بہت سے فوائد ہیں ۔ جن میں یہ کہ کافر اگر نبوت کا اقرار کرے تویہ اس کو اسلام میں داخل نہیں کرے گا جب تک جملہ احکام اسلام کا التزام نہ کرے اور یہ کہ اہل کتاب سے مذہبی امور میں مناظرہ کرنا جائز ہے بلکہ بعض دفعہ واجب ، جب اس مین کوئی مصلحت مد نظر ہو اور یہ کہ مخالف سے مباہلہ کرنا بھی مشروع ہے جب وہ دلائل کے ظہور کے بعد بھی مباہلہ کا قصد کرے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے ایک حریف کو مباہلہ کی دعوت دی تھی اور امام اوزاعی کو بھی ایک جماعت علماءکے ساتھ مباہلہ کا موقع پیش آیا تھا اور یہ تجربہ کیا گیا ہے کہ مباہلہ کرنے والاباطل فریق ایک سال کے اندر اندر عذاب الہی میں گرفتار ہوجاتا ہے اور میرے ( علامہ ابن حجر کے ) ساتھ بھی ایک ملحد نے مباہلہ کیا وہ دو ماہ کے اندر ہی ہلاک ہوگیااور یہ کہ اس سے امام کے لیے مصلحتا اختیار ثابت ہوا ، وہ ذمی لوگوں کے اوپر مال کی قسموں میں سے حسب مصلحت جزیہ لگائے اور یہ کہ امام ذمیوں کے پاس جس آدمی کو بطور تحصیلدار مقرر کرے وہ عالم امانت دارہواور اس میں حضرت ابو عبیدہ ابن جراح رضی اللہ عنہ کی منقبت بھی ہے اور ابن اسحاق نے ذکر کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران والوں کے ہاں تحصیل زکوۃ اور اموال جزیہ کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجاتھا۔ یہ موقع دوسراہے ۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھ صرف صلح نامہ کے وقت طے شدہ رقم کی وصولی کے لیے بھیجا تھا، بعد میں علی رضی اللہ عنہ کو ان سے مقررہ جزیہ سالانہ وصول کرنے اور جومسلمان ہوگئے تھے۔ ، ان سے اموال زکوۃ حاصل کرنے کے لیے بھیجاتھا۔
یہی نجرانی تھے جن کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کا آدھا حصہ ان کی اپنے مذہب کے مطابق عبادت کے لیے خالی فرمادیا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہل مذاہب کے ساتھ یہ رواداری ہمیشہ سنہری حرفوں سے لکھی جاتی رہے گی ، ( صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ) صدافسوس کہ آج خود اسلامی فرقوں میں یہ رواداری مفقود ہے ۔ ایک سنی شیعہ مسجد میں اجنبی نگاہوں سے دیکھا جاتاہے ۔ ایک وہابی کو دیکھ کر ایک بریلوی کی آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں ۔ فلبیک علی الا سلام من کان باکیا۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں وفی قصۃ اہل نجران من الفوائد ان اقرار الکافر با لنبوۃ فلا یدخل فی الاسلام حتی یلتزم احکا م الاسلام وفیہا جواز مجادلۃ اھل الکتاب وقد تجب اذا تعینت مصلحۃ وفیھا مشروعیۃ مباھلۃ المخالف اذا اصر بعد ظھور الحجۃ وقد دعا ابن عباس الی ذلک ثم الاوزاعی ووقع ذلک لجماعۃ من العلماءاومما عرف بالتجربۃ ان من باھل وکان مبطلارد تمضی علیہ سنۃ من یوم المباھلۃ ووقع لی ذلک مع شخص لبعض الملاحدۃ فلم یقم بعد ھا غیر شھرین وفیھا مصالحۃ اھل الذمۃ علی مایراہ الامام من اصناف المال وفیھا بعث الامام الرجل العالم الامین الی اھل الذمۃ فی مصلحۃ الاسلام وفیھا منقبۃ ظاہر ۃ لابی عبیدۃ بن الجراح رضی اللہ عنہ وقد ذکر ابن اسحاق ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعث علیا الی اھل نجران لیاتیہ بصدقاتہم وجزیتھم وھذہ القصۃ غیر قصۃ ابی عبیدۃ لان ابا عبیدۃ توجہ معھم فقبض مال الصلح ورجع وعلی ارسلہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد ذلک یقبض منھم مااستحق علیہم من الجزیۃ ویاخذ ممن اسلم منھم ماوجب علیہ من الصدقۃ واللہ اعلم ( فتح الباری )
حافط ابن حجر فرماتے ہیں کہ اہل نجران کے قصے میں بہت سے فوائد ہیں ۔ جن میں یہ کہ کافر اگر نبوت کا اقرار کرے تویہ اس کو اسلام میں داخل نہیں کرے گا جب تک جملہ احکام اسلام کا التزام نہ کرے اور یہ کہ اہل کتاب سے مذہبی امور میں مناظرہ کرنا جائز ہے بلکہ بعض دفعہ واجب ، جب اس مین کوئی مصلحت مد نظر ہو اور یہ کہ مخالف سے مباہلہ کرنا بھی مشروع ہے جب وہ دلائل کے ظہور کے بعد بھی مباہلہ کا قصد کرے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے ایک حریف کو مباہلہ کی دعوت دی تھی اور امام اوزاعی کو بھی ایک جماعت علماءکے ساتھ مباہلہ کا موقع پیش آیا تھا اور یہ تجربہ کیا گیا ہے کہ مباہلہ کرنے والاباطل فریق ایک سال کے اندر اندر عذاب الہی میں گرفتار ہوجاتا ہے اور میرے ( علامہ ابن حجر کے ) ساتھ بھی ایک ملحد نے مباہلہ کیا وہ دو ماہ کے اندر ہی ہلاک ہوگیااور یہ کہ اس سے امام کے لیے مصلحتا اختیار ثابت ہوا ، وہ ذمی لوگوں کے اوپر مال کی قسموں میں سے حسب مصلحت جزیہ لگائے اور یہ کہ امام ذمیوں کے پاس جس آدمی کو بطور تحصیلدار مقرر کرے وہ عالم امانت دارہواور اس میں حضرت ابو عبیدہ ابن جراح رضی اللہ عنہ کی منقبت بھی ہے اور ابن اسحاق نے ذکر کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران والوں کے ہاں تحصیل زکوۃ اور اموال جزیہ کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجاتھا۔ یہ موقع دوسراہے ۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھ صرف صلح نامہ کے وقت طے شدہ رقم کی وصولی کے لیے بھیجا تھا، بعد میں علی رضی اللہ عنہ کو ان سے مقررہ جزیہ سالانہ وصول کرنے اور جومسلمان ہوگئے تھے۔ ، ان سے اموال زکوۃ حاصل کرنے کے لیے بھیجاتھا۔
یہی نجرانی تھے جن کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کا آدھا حصہ ان کی اپنے مذہب کے مطابق عبادت کے لیے خالی فرمادیا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہل مذاہب کے ساتھ یہ رواداری ہمیشہ سنہری حرفوں سے لکھی جاتی رہے گی ، ( صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ) صدافسوس کہ آج خود اسلامی فرقوں میں یہ رواداری مفقود ہے ۔ ایک سنی شیعہ مسجد میں اجنبی نگاہوں سے دیکھا جاتاہے ۔ ایک وہابی کو دیکھ کر ایک بریلوی کی آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں ۔ فلبیک علی الا سلام من کان باکیا۔