‌صحيح البخاري - حدیث 4372

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ وَفْدِ بَنِي حَنِيفَةَ، وَحَدِيثِ ثُمَامَةَ بْنِ أُثَالٍ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ يُقَالُ لَهُ ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ فَخَرَجَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ فَقَالَ عِنْدِي خَيْرٌ يَا مُحَمَّدُ إِنْ تَقْتُلْنِي تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ مِنْهُ مَا شِئْتَ فَتُرِكَ حَتَّى كَانَ الْغَدُ ثُمَّ قَالَ لَهُ مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ قَالَ مَا قُلْتُ لَكَ إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ فَتَرَكَهُ حَتَّى كَانَ بَعْدَ الْغَدِ فَقَالَ مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ فَقَالَ عِنْدِي مَا قُلْتُ لَكَ فَقَالَ أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ فَانْطَلَقَ إِلَى نَجْلٍ قَرِيبٍ مِنْ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى الْأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ إِلَيَّ وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِينِكَ فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَيَّ وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِكَ فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ الْبِلَادِ إِلَيَّ وَإِنَّ خَيْلَكَ أَخَذَتْنِي وَأَنَا أُرِيدُ الْعُمْرَةَ فَمَاذَا تَرَى فَبَشَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَهُ أَنْ يَعْتَمِرَ فَلَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ قَالَ لَهُ قَائِلٌ صَبَوْتَ قَالَ لَا وَلَكِنْ أَسْلَمْتُ مَعَ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا وَاللَّهِ لَا يَأْتِيكُمْ مِنْ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4372

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: وفد بنو حنیفہ اور ثمامہ بن اثال کے واقعات کابیان ہم سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا ، انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف کچھ سوا ر بھیجے وہ قبیلہ بنو حنیفہ کے ( سردار وں میں سے ) ایک شخص ثمامہ بن اثال نامی کو پکڑکر لائے اور مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم با ہر تشریف لائے اور پوچھا ثمامہ تو کیا سمجھتا ہے ؟ ( میں تیرے ساتھ کیا کروںگا ) انہوں نے کہا محمد ! میرے پاس خیر ہے ( اس کے باوجود ) اگر آپ مجھے قتل کردیں تو آپ ایک شخص کو قتل کریں گے جو خونی ہے ، اس نے جنگ میں مسلمانوں کو مارااور اگر آپ مجھ پر احسان کریں گے تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو ( احسان کرنے والے کا ) شکر اداکر تا ہے لیکن اگر آپ کو مال مطلوب ہے تو جتنا چاہیں مجھ سے مال طلب کر سکتے ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے آئے ، دوسرے دن آپ نے پھر پوچھا ثمامہ اب تو کیا سمجھتا ہے ؟ انہوں نے کہا ، وہی جو میں پہلے کہہ چکا ہوں ، کہ اگر آپ نے احسان کیا تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو شکر اداکر تا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پھر چلے گئے ، تیسرے دن پھر آپ نے ان سے پوچھا اب تو کیا سمجھتا ہے ثمامہ ؟ انہوں نے کہا کہ وہی جو میںآپ سے پہلے کہہ چکا ہوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایاکہ ثمامہ کو چھوڑ دو ( رسی کھول دی گئی ) تو وہ مسجد نبوی سے قریب ایک باغ میں گئے اور غسل کرکے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور پڑھا ” اشھد ان لا الٰہ الا اللہ واشھد ان محمد ا رسول اللہ “ اور کہا اے محمد ! اللہ کی قسم روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے زیادہ میرے لئے برا نہیں تھا لیکن آج آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چہرہ میرے لئے محبوب نہیں ہے ۔ اللہ کی قسم کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ مجھے برا نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا دین مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ اور عزیز ہے ۔ اللہ کی قسم ! کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ برا مجھے نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا شہر میر ا سب سے زیادہ محبوب شہر ہے ۔ آپ کے سواروں نے مجھے پکڑا تو میں عمرہ کا ارادہ کر چکا تھا ۔ اب آپ کا کیا حکم ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بشارت دی اور عمر ہ ادا کرنے کا حکم دیا ۔ جب وہ مکہ پہنچے تو کسی نے کہا کہ تم بے دین ہوگئے ہو ۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایما ن لے آیا ہوں اور خدا کی قسم ! اب تمہارے یہاں یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ بھی اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہ دے دیں ، ( رضی اللہ عنہ ) ۔
تشریح : مکہ کے کافروں نے ثمامہ سے پوچھا تو نے اپنا دین بدل دیا ؟ تو ثمامہ نے یہ جواب دیا ، میں نے دین نہیں بدلا بلکہ اللہ کا تابعدا ر بن گیا ہوں۔ کہتے ہیں ثمامہ نے یمامہ جاکر یہ حکم دیا کہ مکہ کے کافروں کو غلہ نہ بھیجا جائے ۔ آخر مکہ والوں نے مجبور ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھا کہ آپ اقرباءکی پرورش کرتے ہیں ، صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں ، ثمامہ نے ہماراغلہ کیوں روک دیا ہے۔ اسی وقت آپ نے ثمامہ کو اجازت دی کہ مکہ غلہ بھیجنا ہو تو ضرور بھیجو ۔ وان تقتل تقتل ذادم کا بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے اگر آپ مجھ کو مار ڈالیں گے تو ایک ایسے شخص کو مار دیں گے جس کا خون بے کار نہ جائے گا یعنی میری قوم والے میرا بدلہ لے لیں گے ۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں وفی قصۃ ثمامۃ من الفوائد ربط الکافر فی المسجد والمن علی الاسیر الکافر وتعظیم امرالعفو عن المسئی لان ثمامۃ اقسم ان بغضہ انقلب حبا فی ساعۃ واحدۃلما اسواہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم الیہ من العفو والمن بغیر مقاتل وفیہ الاغتسال عند الاسلام وان الاحسان یزیل البغض و یثبت الحب وان الکافر اذا اراد عمل خیر ثم اسلم شرع لہ ان یستمر فی عمل ذلک الخیر وفیہ الملاطفۃ بمن یرجی علی اسلامہ العدد الکثیر من قومہ وفیہ بعث السرایا الی بلاد الکفار واسر من وجد منہم و التخییر بعد ذلک فی قتلہ او الابقاءعلیہ ( فتح الباری ) یعنی ثمامہ کے قصے میں بہت سے فوائد ہیں اس سے کافر کا مسجد میں قید کر نا بھی ثابت ہو ا ( تاکہ وہ مسلمانوں کی نماز و غیر ہ دیکھ کر اسلام کی رغبت کر سکے ) اور کافر قیدی پر احسان کرنا بھی ثابت ہو ا اور برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی کرنا ایک بڑی نیکی کے طور پر ثابت ہو ا۔ اس لیے کہ ثمامہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان وکرم کو دیکھ کر کہا تھا کہ ایک ہی گھڑی میں اس کے دل کا بغض جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کے دل میں تھا، وہ محبت سے بدل گیا ۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کا فر اگر کوئی نیک کا م کرتا ہوا مسلمان ہوجائے تو اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اسے وہ نیک عمل جاری رکھنا چاہئیے اور اس سے یہ بھی ثابت ہواکہ جس قیدی سے اسلام لانے کی امید ہو اس کے ساتھ ہر ممکن نر می برتنا ضروری ہے۔ جیسا ثمامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا گیا اور اس سے بلا د کفار کی طرف بوقت ضرورت لشکر بھیجنابھی ثابت ہو اور یہ بھی کہ جوان میں پائے جائیں وہ قید کرلیے جائیں بعد میں حسب مصلحت اس کے ساتھ معاملہ کیا جائے۔ مکہ کے کافروں نے ثمامہ سے پوچھا تو نے اپنا دین بدل دیا ؟ تو ثمامہ نے یہ جواب دیا ، میں نے دین نہیں بدلا بلکہ اللہ کا تابعدا ر بن گیا ہوں۔ کہتے ہیں ثمامہ نے یمامہ جاکر یہ حکم دیا کہ مکہ کے کافروں کو غلہ نہ بھیجا جائے ۔ آخر مکہ والوں نے مجبور ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھا کہ آپ اقرباءکی پرورش کرتے ہیں ، صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں ، ثمامہ نے ہماراغلہ کیوں روک دیا ہے۔ اسی وقت آپ نے ثمامہ کو اجازت دی کہ مکہ غلہ بھیجنا ہو تو ضرور بھیجو ۔ وان تقتل تقتل ذادم کا بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے اگر آپ مجھ کو مار ڈالیں گے تو ایک ایسے شخص کو مار دیں گے جس کا خون بے کار نہ جائے گا یعنی میری قوم والے میرا بدلہ لے لیں گے ۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں وفی قصۃ ثمامۃ من الفوائد ربط الکافر فی المسجد والمن علی الاسیر الکافر وتعظیم امرالعفو عن المسئی لان ثمامۃ اقسم ان بغضہ انقلب حبا فی ساعۃ واحدۃلما اسواہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم الیہ من العفو والمن بغیر مقاتل وفیہ الاغتسال عند الاسلام وان الاحسان یزیل البغض و یثبت الحب وان الکافر اذا اراد عمل خیر ثم اسلم شرع لہ ان یستمر فی عمل ذلک الخیر وفیہ الملاطفۃ بمن یرجی علی اسلامہ العدد الکثیر من قومہ وفیہ بعث السرایا الی بلاد الکفار واسر من وجد منہم و التخییر بعد ذلک فی قتلہ او الابقاءعلیہ ( فتح الباری ) یعنی ثمامہ کے قصے میں بہت سے فوائد ہیں اس سے کافر کا مسجد میں قید کر نا بھی ثابت ہو ا ( تاکہ وہ مسلمانوں کی نماز و غیر ہ دیکھ کر اسلام کی رغبت کر سکے ) اور کافر قیدی پر احسان کرنا بھی ثابت ہو ا اور برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی کرنا ایک بڑی نیکی کے طور پر ثابت ہو ا۔ اس لیے کہ ثمامہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان وکرم کو دیکھ کر کہا تھا کہ ایک ہی گھڑی میں اس کے دل کا بغض جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کے دل میں تھا، وہ محبت سے بدل گیا ۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کا فر اگر کوئی نیک کا م کرتا ہوا مسلمان ہوجائے تو اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اسے وہ نیک عمل جاری رکھنا چاہئیے اور اس سے یہ بھی ثابت ہواکہ جس قیدی سے اسلام لانے کی امید ہو اس کے ساتھ ہر ممکن نر می برتنا ضروری ہے۔ جیسا ثمامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا گیا اور اس سے بلا د کفار کی طرف بوقت ضرورت لشکر بھیجنابھی ثابت ہو اور یہ بھی کہ جوان میں پائے جائیں وہ قید کرلیے جائیں بعد میں حسب مصلحت اس کے ساتھ معاملہ کیا جائے۔