كِتَابُ المَغَازِي بَابُ وَفْدِ عَبْدِ القَيْسِ صحيح حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ هُوَ ابْنُ طَهْمَانَ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَوَّلُ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ بَعْدَ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِ عَبْدِ الْقَيْسِ بِجُوَاثَى يَعْنِي قَرْيَةً مِنْ الْبَحْرَيْنِ
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: وفد عبدالقیس کابیان
مجھ سے عبد اللہ بن محمد الجعفی نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو عامر عبد الملک نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم نے بیان کیا ، ( یہ طہمان کے بیٹے ہیں ۔ ) ان سے ابو جمرہ نے بیان کیا اوران سے حضر ت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد یعنی مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ جواثی کی مسجد عبد القیس میں قائم ہوا ۔ جواثی بحرین کا ایک گاؤں تھا ۔
تشریح :
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو یہاں صرف وفد عبد القیس کے تعارف کے سلسلے میںلائے ہیں اور بتلایا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گاؤں جواثی نامی میں جمعہ قائم کیا تھا۔ یہ دوسر ا جمعہ ہے جو مسجد نبوی کے بعد دنیائے اسلام میں قائم کیا گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ گاؤں میں بھی قیام جماعت کے ساتھ قیام جمعہ جائز ہے ۔ مگر صدافسوس کہ غالی علماءاحناف نے اقامت جمعہ فی القری کی شدید مخالفت کی ہے ۔ میرے سامنے تجلی بابت اپریل سنہ1957ءکا پرچہ رکھا ہو اہے جس کے ص19 پر حضرت مولانا سیف اللہ صاحب مبلغ کا ذکر خیر لکھا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ دیہات میں جو جمعہ پڑھتے ہیں مجھ سے لکھا لو وہ دوزخی ہیں ۔ یہ حضرت مولانا سیف اللہ صاحب ہی کا خیا ل نہیں بلکہ بیشتر اکابر دیوبند ایساہی کہتے چلے آرہے ہیں۔ اس مسئلہ کے متعلق ہم کتاب الجمعہ میں کا فی لکھ چکے ہیں ۔ مزید ضرورت نہیں ہے ۔ ہاں ایک بڑے زبر دست حنفی عالم مترجم وشارح بخاری شریف کی تقریر یہاں نقل کردیتے ہیں جس سے معلوم ہوگا کہ احناف کی عائد کردہ شرائط جمعہ کا وزن کیا ہے اور گاؤں میں جمعہ جائز ہے یا نا جائز ۔ انصاف کے لیے یہ تقریر دل پذیر کافی وافی ہے۔
ایک معتبر حنفی عالم کی تقریر :
جواثی بحرین کے متعلقات میں سے ایک گاؤں ہے ۔ نماز جمعہ مثل اور فرض نمازوں کے ہے جو شروط اور نمازوں کے واسطے مثل طہارت بدن وجامہ اور سوا ئے اس کے مقرر ہیں وہی اس کے واسطے ہیں ، سوائے مشروعیت دو خطبہ کے اور کوئی دلیل قابل استد لال ایسی ثابت نہیں ہوئی جس سے اور نمازوں سے اس کی مخالفت پائی جائے ۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ اس نماز کے واسطے شروط ثابت کرنے کے واسطے مثل امام اعظم اور مصر جامع اور عدد مخصوص کی سند صحیح پائی نہیں جاتی بلکہ ان سے ثابت بھی نہیں ہوتا اگر دو شخص نماز جمعہ کی بھی پڑھ لیں تو ان کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گی اور اکیلے آدمی کا جمعہ پڑھنا ابوداود کی اس روایت کے خلاف ہے ۔ الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم فی جماعۃ اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے جماعت کے جمعہ پڑھا ہے اور عدد مخصوص کی بابت شوکانی نے نیل الاوطاار میں لکھا ہے جیسا کہ ایک شخص کے اکیلانماز پڑھنے کے واسطے کوئی دلیل نہیں پائی ہے۔ ایسا ہی اسّی یا تیس یا بیس یا نو یا سات آدمیوں کے واسطے بھی کوئی دلیل نہیں پائی گئی اور جس نے کم آدمیوں کی شرط قرار دی ہے دلیل اس کی یہ ہے ، اجماع اور حدیث سے وجوب کا عدد ثابت ہے اور عدم ثبوت دلیل کا واسطے اشتراط عدد مخصوص کے اور صحت نماز دو آدمیوں کے باقی نمازوں میں اور عدم فرق درمیان جمعہ اور جماعت کے شیخ عبد الحق نے فرمایا ہے۔ عددجمعہ کی بابت کوئی دلیل ثابت نہیں اور ایسا ہی سیوطی نے کہا ہے اور جو روایتیں جن سے عدد مخصوص ثابت ہوتا ہے وہ سب کی سب ضعیف ہیںقابل استد لال کے ان میں سے کوئی نہیں اور شرط امام اعظم یعنی سلطان کی جو فقط حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے دلیل ان کی یہ ہے اربعۃ الی السلطان وفی روایۃ الی الا ئمۃ الجمعۃ وا لحدود والزکوۃ والفی اخرجہ ابن ابی شیبۃ لیکن یہ روایت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ یہ چند تابعیوں کا قول ہے ان میں سے حسن بصری ہیں اور عبد اللہ بن محریز اور عمر بن عبد العزیز اور عطا ءاور مسلم بن یسار ، پس اس سے حجت خصم ثابت نہیں ہوسکتی اور یہ روایت جو بزار نے جابر رضی اللہ عنہ سے ۔ طبرانی نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے اور بیہقی نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان لفظوں سے ان اللہ افترض علیکم الجمعۃ فی شہرکم ھذا فمن ترکھا ولہ امام عادل اوجابر، الحدیث نکالی ہے اضعف ہے بلکہ موضوع ہے اور ابن ماجہ سے جو روایت میں ولہ امام عادل او جابر کا لفظ نہیں اور یہی محل حجت کے ہے ۔ بزار کی روایت میں عبد اللہ بن محمد سہمی ہے ، وکیع نے کہا ہے کہ وہ وضاع ہے اور بخاری نے کہا ہے کہ وہ منکر الحدیث ہے اور ابن حبان نے کہا ہے اس سے حجت پکڑنی درست نہیں اور بیہقی کی روایت زکریا سے ہے اس کو صالح اور ابن عدی اور مغنی نے کذب اور وضع سے مہتم کیا ہے ۔ ( فضل الباری تر جمہ صحیح بخاری ترجمہ مولانا فضل احمد شائع کردہ شرف الدین اور فخر الدین حنفی المذہب لاہور در سنہ1886عیسوی پارہ نمبر3، ص301 )
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو یہاں صرف وفد عبد القیس کے تعارف کے سلسلے میںلائے ہیں اور بتلایا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گاؤں جواثی نامی میں جمعہ قائم کیا تھا۔ یہ دوسر ا جمعہ ہے جو مسجد نبوی کے بعد دنیائے اسلام میں قائم کیا گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ گاؤں میں بھی قیام جماعت کے ساتھ قیام جمعہ جائز ہے ۔ مگر صدافسوس کہ غالی علماءاحناف نے اقامت جمعہ فی القری کی شدید مخالفت کی ہے ۔ میرے سامنے تجلی بابت اپریل سنہ1957ءکا پرچہ رکھا ہو اہے جس کے ص19 پر حضرت مولانا سیف اللہ صاحب مبلغ کا ذکر خیر لکھا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ دیہات میں جو جمعہ پڑھتے ہیں مجھ سے لکھا لو وہ دوزخی ہیں ۔ یہ حضرت مولانا سیف اللہ صاحب ہی کا خیا ل نہیں بلکہ بیشتر اکابر دیوبند ایساہی کہتے چلے آرہے ہیں۔ اس مسئلہ کے متعلق ہم کتاب الجمعہ میں کا فی لکھ چکے ہیں ۔ مزید ضرورت نہیں ہے ۔ ہاں ایک بڑے زبر دست حنفی عالم مترجم وشارح بخاری شریف کی تقریر یہاں نقل کردیتے ہیں جس سے معلوم ہوگا کہ احناف کی عائد کردہ شرائط جمعہ کا وزن کیا ہے اور گاؤں میں جمعہ جائز ہے یا نا جائز ۔ انصاف کے لیے یہ تقریر دل پذیر کافی وافی ہے۔
ایک معتبر حنفی عالم کی تقریر :
جواثی بحرین کے متعلقات میں سے ایک گاؤں ہے ۔ نماز جمعہ مثل اور فرض نمازوں کے ہے جو شروط اور نمازوں کے واسطے مثل طہارت بدن وجامہ اور سوا ئے اس کے مقرر ہیں وہی اس کے واسطے ہیں ، سوائے مشروعیت دو خطبہ کے اور کوئی دلیل قابل استد لال ایسی ثابت نہیں ہوئی جس سے اور نمازوں سے اس کی مخالفت پائی جائے ۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ اس نماز کے واسطے شروط ثابت کرنے کے واسطے مثل امام اعظم اور مصر جامع اور عدد مخصوص کی سند صحیح پائی نہیں جاتی بلکہ ان سے ثابت بھی نہیں ہوتا اگر دو شخص نماز جمعہ کی بھی پڑھ لیں تو ان کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گی اور اکیلے آدمی کا جمعہ پڑھنا ابوداود کی اس روایت کے خلاف ہے ۔ الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم فی جماعۃ اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے جماعت کے جمعہ پڑھا ہے اور عدد مخصوص کی بابت شوکانی نے نیل الاوطاار میں لکھا ہے جیسا کہ ایک شخص کے اکیلانماز پڑھنے کے واسطے کوئی دلیل نہیں پائی ہے۔ ایسا ہی اسّی یا تیس یا بیس یا نو یا سات آدمیوں کے واسطے بھی کوئی دلیل نہیں پائی گئی اور جس نے کم آدمیوں کی شرط قرار دی ہے دلیل اس کی یہ ہے ، اجماع اور حدیث سے وجوب کا عدد ثابت ہے اور عدم ثبوت دلیل کا واسطے اشتراط عدد مخصوص کے اور صحت نماز دو آدمیوں کے باقی نمازوں میں اور عدم فرق درمیان جمعہ اور جماعت کے شیخ عبد الحق نے فرمایا ہے۔ عددجمعہ کی بابت کوئی دلیل ثابت نہیں اور ایسا ہی سیوطی نے کہا ہے اور جو روایتیں جن سے عدد مخصوص ثابت ہوتا ہے وہ سب کی سب ضعیف ہیںقابل استد لال کے ان میں سے کوئی نہیں اور شرط امام اعظم یعنی سلطان کی جو فقط حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے دلیل ان کی یہ ہے اربعۃ الی السلطان وفی روایۃ الی الا ئمۃ الجمعۃ وا لحدود والزکوۃ والفی اخرجہ ابن ابی شیبۃ لیکن یہ روایت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ یہ چند تابعیوں کا قول ہے ان میں سے حسن بصری ہیں اور عبد اللہ بن محریز اور عمر بن عبد العزیز اور عطا ءاور مسلم بن یسار ، پس اس سے حجت خصم ثابت نہیں ہوسکتی اور یہ روایت جو بزار نے جابر رضی اللہ عنہ سے ۔ طبرانی نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے اور بیہقی نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان لفظوں سے ان اللہ افترض علیکم الجمعۃ فی شہرکم ھذا فمن ترکھا ولہ امام عادل اوجابر، الحدیث نکالی ہے اضعف ہے بلکہ موضوع ہے اور ابن ماجہ سے جو روایت میں ولہ امام عادل او جابر کا لفظ نہیں اور یہی محل حجت کے ہے ۔ بزار کی روایت میں عبد اللہ بن محمد سہمی ہے ، وکیع نے کہا ہے کہ وہ وضاع ہے اور بخاری نے کہا ہے کہ وہ منکر الحدیث ہے اور ابن حبان نے کہا ہے اس سے حجت پکڑنی درست نہیں اور بیہقی کی روایت زکریا سے ہے اس کو صالح اور ابن عدی اور مغنی نے کذب اور وضع سے مہتم کیا ہے ۔ ( فضل الباری تر جمہ صحیح بخاری ترجمہ مولانا فضل احمد شائع کردہ شرف الدین اور فخر الدین حنفی المذہب لاہور در سنہ1886عیسوی پارہ نمبر3، ص301 )