‌صحيح البخاري - حدیث 4370

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ وَفْدِ عَبْدِ القَيْسِ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي عَمْرٌو وَقَالَ بَكْرُ بْنُ مُضَرَ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ بُكَيْرٍ أَنَّ كُرَيْبًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ حَدَّثَهُ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَزْهَرَ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَرْسَلُوا إِلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالُوا اقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنَّا جَمِيعًا وَسَلْهَا عَنْ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَإِنَّا أُخْبِرْنَا أَنَّكِ تُصَلِّيهَا وَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَكُنْتُ أَضْرِبُ مَعَ عُمَرَ النَّاسَ عَنْهُمَا قَالَ كُرَيْبٌ فَدَخَلْتُ عَلَيْهَا وَبَلَّغْتُهَا مَا أَرْسَلُونِي فَقَالَتْ سَلْ أُمَّ سَلَمَةَ فَأَخْبَرْتُهُمْ فَرَدُّونِي إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ بِمِثْلِ مَا أَرْسَلُونِي إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْهُمَا وَإِنَّهُ صَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ دَخَلَ عَلَيَّ وَعِنْدِي نِسْوَةٌ مِنْ بَنِي حَرَامٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَصَلَّاهُمَا فَأَرْسَلْتُ إِلَيْهِ الْخَادِمَ فَقُلْتُ قُومِي إِلَى جَنْبِهِ فَقُولِي تَقُولُ أُمُّ سَلَمَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَمْ أَسْمَعْكَ تَنْهَى عَنْ هَاتَيْنِ الرَّكْعَتَيْنِ فَأَرَاكَ تُصَلِّيهِمَا فَإِنْ أَشَارَ بِيَدِهِ فَاسْتَأْخِرِي فَفَعَلَتْ الْجَارِيَةُ فَأَشَارَ بِيَدِهِ فَاسْتَأْخَرَتْ عَنْهُ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ يَا بِنْتَ أَبِي أُمَيَّةَ سَأَلْتِ عَنْ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ إِنَّهُ أَتَانِي أُنَاسٌ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ بِالْإِسْلَامِ مِنْ قَوْمِهِمْ فَشَغَلُونِي عَنْ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ فَهُمَا هَاتَانِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4370

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: وفد عبدالقیس کابیان ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا ، کہا مجھ سے عبد اللہ بن وہب نے ، کہا مجھ کو عمرو بن حارث نے خبر دی اور بکر بن مضر نے یوں بیان کیا کہ عبد اللہ بن وہب نے عمرو بن حارث سے روایت کیا ، ان سے بکیر نے اور ان سے کریب ( ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام ) نے بیان کیا کہ ابن عباس ، عبد الرحمن بن ازہر اور مسور بن مخرمہ نے انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا اور کہا کہ ام المومنین سے ہم سب کا سلام کہنا اور عصر کے بعد دو رکعتوں کے متعلق ان سے پوچھنا اور یہ کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ انہیں پڑھتی ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پڑھنے سے روکا تھا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں ان دو رکعتوں کے پڑھنے پر عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ( ان کے دور خلافت میں ) لوگوں کو مارا کرتا تھا ۔ کریب نے بیان کیا کہ پھر میں ام المومنین کی خد مت میں حاضر ہوا اور ان کا پیغام پہنچا یا ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اس کے متعلق ام سلمہ سے پو چھو ، میں نے ان حضرات کو آکر اس کی اطلاع دی تو انہوں نے مجھ کو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا ، وہ باتیں پوچھنے کے لیے جو عائشہ سے انہوں نے پچھوائی تھیں ۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے خود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ عصر کے بعد دو رکعتوں سے منع کر تے تھے لیکن آپ ا نے ایک مرتبہ عصر کی نماز پڑھی ، پھر میرے یہاں تشریف لائے ، میرے پاس اس وقت قبیلہ بنوحرام کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں اور آپ نے دو رکعت نما ز پڑھی ۔ یہ دیکھ کر میں نے خادمہ کو آپ کی خدمت میں بھیجا اوراسے ہدایت کردی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں کھڑی ہوجانا اور عرض کرنا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا ہے یا رسول اللہ ! میں نے تو آپ سے ہی سنا تھا اور آپ نے عصر کے بعد ان دو رکعتوں کے پڑھنے سے منع کیا تھا لیکن میں آج خود آپ کو دو رکعت پڑھتے دیکھ رہی ہوں ۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ سے اشارہ کرےں تو پھر پیچھے ہٹ جا نا ۔ خادمہ نے میری ہدایت کے مطابق کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو وہ پیچھے ہٹ گئی ۔ پھر جب آپ فارغ ہوئے توآپ نے فرمایا اے ابو امیہ کی بیٹی ! عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے متعلق تم نے سوال کیا ہے ، وجہ یہ ہوئی تھی کہ قبیلہ عبد القیس کے کچھ لوگ میرے یہا ں اپنی قوم کا اسلام لے کر آئے تھے اور ان کی وجہ سے ظہر کے بعد کی دورکعتیں میں نہیں پڑھ سکا تھا یہ وہی دو رکعتیں ہیں ۔
تشریح : ترجمۃ الباب اس سے نکلتا ہے کہ آخر حدیث میں وفد عبد القیس کے آنے کا ذکر ہے جس دو گا نہ کا ذکر ہے یہ عصر کا دو گانہ نہ تھا بلکہ ظہر کا دو گانہ تھا ۔ طحاوی کی روایت میں یہی ہے کہ میرے پاس زکوۃ کے اونٹ آئے تھے، میں ان کو دیکھنے میں یہ دوگانہ پڑھنا بھول گیا تھا ۔ پھر مجھے یاد آیا تو گھر آکر تمہارے پاس ان کو پڑھ لیا ۔ ابو امیہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے والد تھے۔ ترجمۃ الباب اس سے نکلتا ہے کہ آخر حدیث میں وفد عبد القیس کے آنے کا ذکر ہے جس دو گا نہ کا ذکر ہے یہ عصر کا دو گانہ نہ تھا بلکہ ظہر کا دو گانہ تھا ۔ طحاوی کی روایت میں یہی ہے کہ میرے پاس زکوۃ کے اونٹ آئے تھے، میں ان کو دیکھنے میں یہ دوگانہ پڑھنا بھول گیا تھا ۔ پھر مجھے یاد آیا تو گھر آکر تمہارے پاس ان کو پڑھ لیا ۔ ابو امیہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے والد تھے۔