‌صحيح البخاري - حدیث 437

كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابٌ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ المُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «قَاتَلَ اللَّهُ اليَهُودَ، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 437

کتاب: نماز کے احکام و مسائل باب ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انھوں نے مالک کے واسطے سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے سعید بن مسیب سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہودیوں پر اللہ کی لعنت ہو انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔
تشریح : آپ نے امت کو اس لیے ڈرایا کہ کہیں وہ بھی آپ کی قبر کو مسجد نہ بنالیں۔ ایک حدیث میں آپ نے فرمایا میری قبر پر میلہ نہ لگانا۔ ایک دفعہ فرمایاکہ یااللہ! میری قبرکو بت نہ بنادیناکہ لوگ اسے پوجیں۔یہود اورنصاریٰ ہردو کے یہاں قبر پرستی عام تھی اورآج بھی ہے۔ حافظ ابن قیم اغاثۃ اللہفان میں فرماتے ہیں کہ اگرکوئی شخص موجودہ عام مسلمانوں کا حدیث نبوی اور آثارصحابہ وتابعین کی روشنی میں موازنہ کرے تووہ دیکھے گا کہ آج مسلمانوں کے ایک جم غفیر نے بھی کس طرح حدیث نبوی کی مخالفت کرنے کی ٹھان لی ہے۔ مثلاً: ( 1 ) حضورعلیہ السلام نے قبورانبیاءپربھی نماز پڑھنے سے منع فرمایا مگر مسلمان شوق سے کتنی ہی قبورپر نماز پڑھتے ہیں۔ ( 2 ) حضور علیہ السلام نے قبروں پر مساجد کی طرح عمارت بنانے سے سختی سے روکا مگر آج ان پر بڑی بڑی عمارات بناکر ان کا نام خانقاہ، مزارشریف اور درگاہ وغیرہ رکھا جاتاہے۔ ( 3 ) حضورعلیہ السلام نے قبروں پر چراغاں سے منع فرمایا۔ مگرقبرپرست مسلمان قبروں پر خوب خوب چراغاں کرتے اوراس کام کے لیے کتنی ہی جائیدادیں وقف کرتے ہیں۔ ( 4 ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر زائد مٹی ڈالنے سے بھی منع فرمایا۔ مگر یہ لوگ مٹی کے بجائے چونا اور اینٹ سے ان کو پختہ بناتے ہیں۔ ( 5 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر کتبے لکھنے سے منع فرمایا۔ مگریہ لوگ شاندار عمارتیں بناکر آیات قرآنی قبروں پر لکھتے ہیں۔ گویاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کے مخالف اوردین کی ہر ہدایت کے باغی بنے ہوئے ہیں۔ صاحب مجالس الابرار لکھتے ہیں کہ یہ فرقہ ضالہ غلو ( حد سے بڑھنا ) میں یہاں تک پہنچ گیاہے کہ بیت اللہ شریف کی طرح قبروں کے آداب اورارکان ومناسک مقرر کرڈالے ہیں۔ جواسلام کی جگہ کھلی ہوئی بت پرستی ہے۔ پھر تعجب یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے آپ کو حنفی سنی کہلاتے ہیں۔ حالانکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ہرگز ہرگز ایسے امور کے لیے نہیں فرمایا۔ اللہ مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے۔ آپ نے امت کو اس لیے ڈرایا کہ کہیں وہ بھی آپ کی قبر کو مسجد نہ بنالیں۔ ایک حدیث میں آپ نے فرمایا میری قبر پر میلہ نہ لگانا۔ ایک دفعہ فرمایاکہ یااللہ! میری قبرکو بت نہ بنادیناکہ لوگ اسے پوجیں۔یہود اورنصاریٰ ہردو کے یہاں قبر پرستی عام تھی اورآج بھی ہے۔ حافظ ابن قیم اغاثۃ اللہفان میں فرماتے ہیں کہ اگرکوئی شخص موجودہ عام مسلمانوں کا حدیث نبوی اور آثارصحابہ وتابعین کی روشنی میں موازنہ کرے تووہ دیکھے گا کہ آج مسلمانوں کے ایک جم غفیر نے بھی کس طرح حدیث نبوی کی مخالفت کرنے کی ٹھان لی ہے۔ مثلاً: ( 1 ) حضورعلیہ السلام نے قبورانبیاءپربھی نماز پڑھنے سے منع فرمایا مگر مسلمان شوق سے کتنی ہی قبورپر نماز پڑھتے ہیں۔ ( 2 ) حضور علیہ السلام نے قبروں پر مساجد کی طرح عمارت بنانے سے سختی سے روکا مگر آج ان پر بڑی بڑی عمارات بناکر ان کا نام خانقاہ، مزارشریف اور درگاہ وغیرہ رکھا جاتاہے۔ ( 3 ) حضورعلیہ السلام نے قبروں پر چراغاں سے منع فرمایا۔ مگرقبرپرست مسلمان قبروں پر خوب خوب چراغاں کرتے اوراس کام کے لیے کتنی ہی جائیدادیں وقف کرتے ہیں۔ ( 4 ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر زائد مٹی ڈالنے سے بھی منع فرمایا۔ مگر یہ لوگ مٹی کے بجائے چونا اور اینٹ سے ان کو پختہ بناتے ہیں۔ ( 5 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر کتبے لکھنے سے منع فرمایا۔ مگریہ لوگ شاندار عمارتیں بناکر آیات قرآنی قبروں پر لکھتے ہیں۔ گویاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کے مخالف اوردین کی ہر ہدایت کے باغی بنے ہوئے ہیں۔ صاحب مجالس الابرار لکھتے ہیں کہ یہ فرقہ ضالہ غلو ( حد سے بڑھنا ) میں یہاں تک پہنچ گیاہے کہ بیت اللہ شریف کی طرح قبروں کے آداب اورارکان ومناسک مقرر کرڈالے ہیں۔ جواسلام کی جگہ کھلی ہوئی بت پرستی ہے۔ پھر تعجب یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے آپ کو حنفی سنی کہلاتے ہیں۔ حالانکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ہرگز ہرگز ایسے امور کے لیے نہیں فرمایا۔ اللہ مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے۔