كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ سِيفِ البَحْرِ، وَهُمْ يَتَلَقَّوْنَ عِيرًا لِقُرَيْشٍ، وَأَمِيرُهُمْ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الجَرَّاح ؓ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ الَّذِي حَفِظْنَاهُ مِنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مِائَةِ رَاكِبٍ أَمِيرُنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ نَرْصُدُ عِيرَ قُرَيْشٍ فَأَقَمْنَا بِالسَّاحِلِ نِصْفَ شَهْرٍ فَأَصَابَنَا جُوعٌ شَدِيدٌ حَتَّى أَكَلْنَا الْخَبَطَ فَسُمِّيَ ذَلِكَ الْجَيْشُ جَيْشَ الْخَبَطِ فَأَلْقَى لَنَا الْبَحْرُ دَابَّةً يُقَالُ لَهَا الْعَنْبَرُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ نِصْفَ شَهْرٍ وَادَّهَنَّا مِنْ وَدَكِهِ حَتَّى ثَابَتْ إِلَيْنَا أَجْسَامُنَا فَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ ضِلَعًا مِنْ أَضْلَاعِهِ فَنَصَبَهُ فَعَمَدَ إِلَى أَطْوَلِ رَجُلٍ مَعَهُ قَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً ضِلَعًا مِنْ أَضْلَاعِهِ فَنَصَبَهُ وَأَخَذَ رَجُلًا وَبَعِيرًا فَمَرَّ تَحْتَهُ قَالَ جَابِرٌ وَكَانَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ نَحَرَ ثَلَاثَ جَزَائِرَ ثُمَّ نَحَرَ ثَلَاثَ جَزَائِرَ ثُمَّ نَحَرَ ثَلَاثَ جَزَائِرَ ثُمَّ إِنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ نَهَاهُ وَكَانَ عَمْرٌو يَقُولُ أَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحٍ أَنَّ قَيْسَ بْنَ سَعْدٍ قَالَ لِأَبِيهِ كُنْتُ فِي الْجَيْشِ فَجَاعُوا قَالَ انْحَرْ قَالَ نَحَرْتُ قَالَ ثُمَّ جَاعُوا قَالَ انْحَرْ قَالَ نَحَرْتُ قَالَ ثُمَّ جَاعُوا قَالَ انْحَرْ قَالَ نَحَرْتُ ثُمَّ جَاعُوا قَالَ انْحَرْ قَالَ نُهِيتُ
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: غزوہ سیف البحر کا بیان
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیا ن بن عیینہ نے بیان کیا ، کہا کہ ہم نے عمرو بن دینار سے جو یاد کیا وہ یہ ہے کہ انہوں نے بیان کیاکہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہماسے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سو سواروں کے ساتھ بھیجا اور ہمارا امیر ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بنایا ۔ تاکہ ہم قریش کے قافلہ تجارت کی تلاش میں رہیں ۔ ساحل سمندر پر ہم پندرہ دن تک پڑاؤ ڈالے رہے ۔ ہمیں ( اس سفر میں ) بڑی سخت بھوک اور فاقے کا سامنا کرنا پڑا ، یہاں تک نوبت پہونچی کہ ہم نے ببول کے پتے کھا کر وقت گذارا ۔ اسی لیے اس فوج کا لقب پتوں کی فوج ہوگیا ۔ پھر اتفاق سے سمندر نے ہمارے لیے ایک مچھلی جیسا جانور ساحل پر پھینک دیا ، اس کا نام عنبر تھا ، ہم نے اس کو پندرہ دن تک کھا یا اور اس کی چربی کو تیل کے طور پر ( اپنے جسموں پر ) ملا ۔ اس سے ہمارے بدن کی طاقت وقوت پھر لوٹ آئی ۔ بعد میں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ا س کی ایک پسلی نکال کر کھڑی کر وائی اورجو لشکر میں سب سے لمبے آدمی تھے ، انہیں اس کے نیچے سے گزارا ۔ سفیان بن عیینہ نے ایک مرتبہ اس طرح بیان کیا کہ ایک پسلی نکال کر کھڑی کردی اور ایک شخص کو اونٹ پر سوار کر ایا وہ اس کے نیچے سے نکل گیا ۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ لشکر کے ایک آدمی نے پہلے تین اونٹ ذبح کئے پھر تین اونٹ ذبح کئے اور جب تیسری مرتبہ تین اونٹ ذبح کئے تو ابو عبیدہ نے انہیں روک دیا کیونکہ اگر سب اونٹ ذبح کردیتے تو سفر کیسے ہوتا اور عمرو بن دینا ر نے بیان کیا کہ ہم کو ابو صالح ذکوان نے خبردی کہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے ( واپس آ کر ) اپنے والد ( سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ) سے کہا کہ میں بھی لشکر میں تھا جب لوگوں کوبھوک لگی تو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اونٹ ذبح کرو ، قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے ذبح کر دیا کہا کہ پھر بھوکے ہوئے تو انہوں نے کہا کہ اونٹ ذبح کرو ، میں نے ذبح کیا ، بیان کیا کہ جب پھر بھوکے ہوئے تو کہا کہ اونٹ ذبح کرو ، میں نے ذبح کیا ، پھر بھوکے ہوئے تو کہا کہ اونٹ ذبح کرو ، پھر قیس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس مرتبہ مجھے امیر لشکر کی طرف سے منع کردیا گیا ۔
تشریح :
بعد میں یہ سو چا گیا کہ اگر اونٹ سارے اس طرح ذبح کردئےے گئے تو پھر سفر کیسے ہوگا۔ لہذا اونٹوں کاذبح کرنابند کر دیا گیامگر اللہ نے مچھلی کے ذریعہ لشکر کی خوراک کا انتظام کردیا ۔ ذلَکَ فَضلُ اللّہِ یُوتِیہِ مَنِ یَّشَائُ وَاللّہُ ذُو الفَضلِ العَظِیمِ
بعد میں یہ سو چا گیا کہ اگر اونٹ سارے اس طرح ذبح کردئےے گئے تو پھر سفر کیسے ہوگا۔ لہذا اونٹوں کاذبح کرنابند کر دیا گیامگر اللہ نے مچھلی کے ذریعہ لشکر کی خوراک کا انتظام کردیا ۔ ذلَکَ فَضلُ اللّہِ یُوتِیہِ مَنِ یَّشَائُ وَاللّہُ ذُو الفَضلِ العَظِیمِ