‌صحيح البخاري - حدیث 4359

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ ذَهَابِ جَرِيرٍ إِلَى اليَمَنِ صحيح حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ الْعَبْسِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسٍ عَنْ جَرِيرٍ قَالَ كُنْتُ بِالْيَمَنِ فَلَقِيتُ رَجُلَيْنِ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ ذَا كَلَاعٍ وَذَا عَمْرٍو فَجَعَلْتُ أُحَدِّثُهُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ ذُو عَمْرٍو لَئِنْ كَانَ الَّذِي تَذْكُرُ مِنْ أَمْرِ صَاحِبِكَ لَقَدْ مَرَّ عَلَى أَجَلِهِ مُنْذُ ثَلَاثٍ وَأَقْبَلَا مَعِي حَتَّى إِذَا كُنَّا فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ رُفِعَ لَنَا رَكْبٌ مِنْ قِبَلِ الْمَدِينَةِ فَسَأَلْنَاهُمْ فَقَالُوا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ وَالنَّاسُ صَالِحُونَ فَقَالَا أَخْبِرْ صَاحِبَكَ أَنَّا قَدْ جِئْنَا وَلَعَلَّنَا سَنَعُودُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ وَرَجَعَا إِلَى الْيَمَنِ فَأَخْبَرْتُ أَبَا بَكْرٍ بِحَدِيثِهِمْ قَالَ أَفَلَا جِئْتَ بِهِمْ فَلَمَّا كَانَ بَعْدُ قَالَ لِي ذُو عَمْرٍو يَا جَرِيرُ إِنَّ بِكَ عَلَيَّ كَرَامَةً وَإِنِّي مُخْبِرُكَ خَبَرًا إِنَّكُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ لَنْ تَزَالُوا بِخَيْرٍ مَا كُنْتُمْ إِذَا هَلَكَ أَمِيرٌ تَأَمَّرْتُمْ فِي آخَرَ فَإِذَا كَانَتْ بِالسَّيْفِ كَانُوا مُلُوكًا يَغْضَبُونَ غَضَبَ الْمُلُوكِ وَيَرْضَوْنَ رِضَا الْمُلُوكِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4359

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی ؓ کا یمن کی طرف جانا مجھ سے عبد اللہ بن ابی شیبہ عبسی نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن ادریس نے بیان کیا ، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے ، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ( یمن سے واپسی پر مدینہ آنے کے لیے ) میں دریا کے راستے سے سفر کر رہاتھا ۔ اس وقت یمن کے دوآدمیوں ذوکلاع اور ذوعمرو سے میری ملاقات ہوئی میں ان سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کرنے لگا اس پر ذوعمرو نے کہا اگر تمہارے صاحب ( یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) وہی ہیں جن کا ذکر تم کررہے ہو تو ان کی وفات کو بھی تین دن گزرچکے ۔ یہ دونوں میرے ساتھ ہی ( مدینہ ) کی طرف چل رہے تھے ۔ راستے میں ہمیں مدینہ کی طرف سے آتے ہوئے کچھ سوار دکھائی دئےے ، ہم نے ان سے پوچھا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں ۔ آپ کے خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ منتخب ہوئے ہیں اور لوگ اب بھی سب خیریت سے ہیں ۔ ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ اپنے صاحب ( ابو بکر رضی اللہ عنہ ) سے کہنا کہ ہم آئے تھے اور ان شاءاللہ پھر مدینہ آئیں گے یہ کہہ کر دونوں یمن کی طرف واپس چلے گئے ۔ پھرمیں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ان کی باتوں کی اطلاع دی توآپ نے فرمایا کہ پھر انہیں اپنے ساتھ لائے کیوں نہیں ؟ بہت دنوں بعد خلافت عمری میں ذوعمرو نے ایک مرتبہ مجھ سے کہا کہ جریر ! تمہارا مجھ پر احسان ہے اور تمہیں میںایک بات بتاؤ ں گا کہ تم اہل عرب اس وقت تک خیروبھلا ئی کے ساتھ رہوگے جب تک تمہارا طرز عمل یہ ہوگا کہ جب تمہارا کوئی امیر وفات پاجائے گا تو تم اپنا کوئی دوسرا امیر منتخب کر لیا کروگے ۔ لیکن جب ( امارت کے لیے ) تلوار تک بات پہنچ جائے تو تمہارے امیر بادشاہ بن جائیں گے ۔ بادشاہوں کی طرح غصہ ہوا کریں گے اور انہیںکی طرح خوش ہوا کریں گے ۔
تشریح : حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ کا یہ سفر یمن میں دعوت اسلام کے لیے تھا ۔ ذو الخلصہ کے ڈھانے کا سفر دوسرا ہے۔ راستہ میں ذوعمر وآپ کو ملا اور اس نے وفات نبو ی کی خبر سنائی جس پر تین دن گزرچکے تھے ۔ ذوعمرو کو یہ خبر کسی ذریعہ سے مل چکی ہو گی۔ دیوبندی تر جمہ بخاری میں یہاں وفات نبوی پر تین سال گزرنے کا ذکر لکھا گیا ہے ۔ جو عقلاً بھی بالکل غلط ہے ۔ اس لیے کہ تین سال تو خلافت صدیقی کی مدت بھی نہیں ہے۔ حضرت مولانا وحید الزماں نے تین دن کا ترجمہ کیا ہے ، وہی ہم نے نقل کیا ہے اور یہی صحیح ہے۔ ذوعمر و کی آخری نصیحت جو یہاں مذکور ہے وہ با لکل ٹھیک ثابت ہوئی ۔ خلفائے راشدین کے زمانے تک خلافت مسلمانوں کے مشورے اور صلاح سے ہوتی رہی ۔ اس دور کے بعد کسری اور قیصر کی طرح لوگ طاقت کے بل پر بادشاہ بننے لگے اور مسلمانوں کا شیرازہ منتشر ہوگیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب خلافت یزید کا اعلان کیاتو کئی بابصیرت مسلمانوں نے صاف کہہ دیا تھاکہ آپ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر اب کسری اور قیصر کی سنت کو زندہ کر رہے ہیں ۔ بہر حال اسلامی خلافت کی بنیاد امرہم شوری بینہم پر ہے جس کو ترقی دے کر آج کی جمہوریت لائی گئی ہے ۔ اگرچہ اس میں بہت سی خرابیاں ہیں ، تاہم شوری کی ایک ادنی جھلک ہے۔ حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ کا یہ سفر یمن میں دعوت اسلام کے لیے تھا ۔ ذو الخلصہ کے ڈھانے کا سفر دوسرا ہے۔ راستہ میں ذوعمر وآپ کو ملا اور اس نے وفات نبو ی کی خبر سنائی جس پر تین دن گزرچکے تھے ۔ ذوعمرو کو یہ خبر کسی ذریعہ سے مل چکی ہو گی۔ دیوبندی تر جمہ بخاری میں یہاں وفات نبوی پر تین سال گزرنے کا ذکر لکھا گیا ہے ۔ جو عقلاً بھی بالکل غلط ہے ۔ اس لیے کہ تین سال تو خلافت صدیقی کی مدت بھی نہیں ہے۔ حضرت مولانا وحید الزماں نے تین دن کا ترجمہ کیا ہے ، وہی ہم نے نقل کیا ہے اور یہی صحیح ہے۔ ذوعمر و کی آخری نصیحت جو یہاں مذکور ہے وہ با لکل ٹھیک ثابت ہوئی ۔ خلفائے راشدین کے زمانے تک خلافت مسلمانوں کے مشورے اور صلاح سے ہوتی رہی ۔ اس دور کے بعد کسری اور قیصر کی طرح لوگ طاقت کے بل پر بادشاہ بننے لگے اور مسلمانوں کا شیرازہ منتشر ہوگیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب خلافت یزید کا اعلان کیاتو کئی بابصیرت مسلمانوں نے صاف کہہ دیا تھاکہ آپ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر اب کسری اور قیصر کی سنت کو زندہ کر رہے ہیں ۔ بہر حال اسلامی خلافت کی بنیاد امرہم شوری بینہم پر ہے جس کو ترقی دے کر آج کی جمہوریت لائی گئی ہے ۔ اگرچہ اس میں بہت سی خرابیاں ہیں ، تاہم شوری کی ایک ادنی جھلک ہے۔