‌صحيح البخاري - حدیث 4358

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ ذَاتِ السُّلاَسِلِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ عَلَى جَيْشِ ذَاتِ السُّلَاسِلِ قَالَ فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ عَائِشَةُ قُلْتُ مِنْ الرِّجَالِ قَالَ أَبُوهَا قُلْتُ ثُمَّ مَنْ قَالَ عُمَرُ فَعَدَّ رِجَالًا فَسَكَتُّ مَخَافَةَ أَنْ يَجْعَلَنِي فِي آخِرِهِمْ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4358

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: غزوہ ذات السلاسل کا بیان ہم سے اسحاق بن شاہین نے بیان کیا ، کہا ہم کو خالد بن عبد اللہ نے خبر دی ، انہیں خالد حذاءنے ، انہیں ابو عثمان نہدی رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر وبن عاص رضی اللہ عنہ کو غزوہ ذات السلاسل کے لیے امیر لشکر بنا کر بھیجا ۔ عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ( غزوہ سے واپس آکر ) میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے پوچھا کہ آپ کو سب سے زیادہ عزیز کون شخص ہے ؟ فرمایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا ، میں نے پوچھا اور مردوں میں ؟ فرمایا کہ اس کے والد ، میں نے پوچھا ، اس کے بعد کون ؟ فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ ۔ اس طرح آپ نے کئی آدمیوں کے نام لیے بس میں خاموش ہوگیا کہ کہیںآپ مجھے سب سے بعد میں نہ کردیں ۔
تشریح : اس لڑائی میں تین سو مہاجرین اور انصار مع تیس گھوڑے آپ نے بھیجے تھے ۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو ان کا سردار بنایا تھا۔ جب عمرو رضی اللہ عنہ دشمن کے ملک کے قریب پہنچے تو انہوں نے اور مزید فوج طلب کی ۔ آپ ا نے ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو سردار مقرر کر کے دوسو آدمی اور بھیجے ۔ ان میں حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے ۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ جب عمرو رضی اللہ عنہ سے ملے تو انہوں نے امام بننا چاہا لیکن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا آنحضرت انے آپ کو میری مدد کے لیے بھیجا ہے ، سردار تو میں ہی رہوں گا ۔ ابو عبیدہ نے اس معقول بات کو مان لیا اور عمر وبن عاص رضی اللہ عنہ امامت کرتے رہے ۔ حاکم کی روایت میں ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے لشکر میں انگار روشن کر نے سے منع کیا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر انکا ر فرمایا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا چپ رہو، آنحضرت ا نے جو عمرو کو سردار مقرر کیا ہے تو اس وجہ سے کہ وہ لڑائی کے فن سے خوب واقف کار ہے۔ بیہقی کی روایت میں ہے کہ عمر وبن عاص رضی اللہ عنہ جب لوٹ کر آئے تو اپنے دل میںیہ سمجھے کہ میں حضرت ابو بکر وحضرت عمر رضی اللہ عنہما سے زیادہ درجہ رکھتا ہوں ۔ اسی لیے انہوں نے آنحضرت ا سے سوال کیا ، جس کا روایت میں تذکرہ ہے۔ جس کو سن کر انہیں حقیقت حال کا علم ہوگیا ۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ مفضول کی امامت بھی افضل کے لیے جا ئز ہے کیونکہ حضرات شیخین اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہم حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔ اس لڑائی میں تین سو مہاجرین اور انصار مع تیس گھوڑے آپ نے بھیجے تھے ۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو ان کا سردار بنایا تھا۔ جب عمرو رضی اللہ عنہ دشمن کے ملک کے قریب پہنچے تو انہوں نے اور مزید فوج طلب کی ۔ آپ ا نے ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو سردار مقرر کر کے دوسو آدمی اور بھیجے ۔ ان میں حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے ۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ جب عمرو رضی اللہ عنہ سے ملے تو انہوں نے امام بننا چاہا لیکن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا آنحضرت انے آپ کو میری مدد کے لیے بھیجا ہے ، سردار تو میں ہی رہوں گا ۔ ابو عبیدہ نے اس معقول بات کو مان لیا اور عمر وبن عاص رضی اللہ عنہ امامت کرتے رہے ۔ حاکم کی روایت میں ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے لشکر میں انگار روشن کر نے سے منع کیا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر انکا ر فرمایا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا چپ رہو، آنحضرت ا نے جو عمرو کو سردار مقرر کیا ہے تو اس وجہ سے کہ وہ لڑائی کے فن سے خوب واقف کار ہے۔ بیہقی کی روایت میں ہے کہ عمر وبن عاص رضی اللہ عنہ جب لوٹ کر آئے تو اپنے دل میںیہ سمجھے کہ میں حضرت ابو بکر وحضرت عمر رضی اللہ عنہما سے زیادہ درجہ رکھتا ہوں ۔ اسی لیے انہوں نے آنحضرت ا سے سوال کیا ، جس کا روایت میں تذکرہ ہے۔ جس کو سن کر انہیں حقیقت حال کا علم ہوگیا ۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ مفضول کی امامت بھی افضل کے لیے جا ئز ہے کیونکہ حضرات شیخین اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہم حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔