‌صحيح البخاري - حدیث 4355

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ ذِي الخَلَصَةِ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا خَالِدٌ حَدَّثَنَا بَيَانٌ عَنْ قَيْسٍ عَنْ جَرِيرٍ قَالَ كَانَ بَيْتٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ يُقَالُ لَهُ ذُو الْخَلَصَةِ وَالْكَعْبَةُ الْيَمانِيَةُ وَالْكَعْبَةُ الشَّأْمِيَّةُ فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا تُرِيحُنِي مِنْ ذِي الْخَلَصَةِ فَنَفَرْتُ فِي مِائَةٍ وَخَمْسِينَ رَاكِبًا فَكَسَرْنَاهُ وَقَتَلْنَا مَنْ وَجَدْنَا عِنْدَهُ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَدَعَا لَنَا وَلِأَحْمَسَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4355

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: غزوہ ذو الخلصہ کا بیان ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، کہا ہم سے خالد بن عبد اللہ طحان نے بیان کیا ، ان سے بیان بن بشر نے بیان کیا ، ان سے قیس نے اور ان سے جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ذوالخلصہ سے مجھے کیوں نہیں بے فکری دلاتے ! میں نے عرض کیا میں حکم کی تعمیل کروں گا ۔ چنانچہ قبیلہ احمس کے ڈیڑھ سوسواروں کو ساتھ لے کر میں روانہ ہوا ۔ یہ سب اچھے سوار تھے ، لیکن میںسواری اچھی طرح نہیں کرپاتا تھا ۔ میں نے اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا توآپ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا جس کا اثر میں نے اپنے سینہ میں دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اے اللہ ! اسے اچھا سوار بنادے اور اسے ہدایت کرنے والا اور خود ہدایت پایاہوا بنادے ۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر اس کے بعد میں کبھی کسی گھوڑے سے نہیں گرا ۔ راوی نے بیان کیا کہ ذوالخلصہ ایک ( بت خانہ ) تھا ، یمن میں قبیلہ خثعم اور بجیلہ کا ، اس میں بت تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی اور اسے کعبہ بھی کہتے تھے ۔ بیان کیا کہ پھر جریر وہاں پہنچے اور اسے آگ لگادی اور منہدم کر دیا ۔ بیان کیا کہ جب جریر رضی اللہ عنہ یمن پہنچے تو وہاں ایک شخص تھا جو تیروں سے فال نکا لا کرتا تھا ۔ اس سے کسی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی یہاں آگئے ہیں ۔ اگر انہوں نے تمہیں پالیا تو تمہا ری گردن ماردیں گے ۔ بیان کیا کہ ابھی وہ فال نکال ہی رہے تھے کہ حضرت جریر رضی اللہ عنہ وہاں پہنچ گئے ۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ یہ فال کے تیر توڑ کر کلمہ لاالٰہ الا اللہ پڑھ لے ورنہ میں تیری گردن ماردوںگا ۔ راوی نے بیان کیا اس شخص نے تیر وغیر ہ تو ڑ ڈالے اور کلمہ ایمان کی گواہی دی ۔ اس کے بعد جریر رضی اللہ عنہ نے قبیلہ احمس کے ایک صحابی ابو ارطاط رضی اللہ عنہ نامی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںبھیجا جب وہ خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے اس وقت تک نہیں چلا جب تک اس بت کدہ کو خارش زدہ اونٹ کی طرح جلا کر سیاہ نہیں کردیا ۔ بیان کیا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ احمس کے گھوڑوں اور سواروں کے لیے پانچ مرتبہ برکت کی دعا فرمائی ۔
تشریح : ایک روایت میں یوں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور منہ اور سینے پر زیرناف تک پھیر دیا پھر سر پر ہاتھ رکھا اور پیٹھ پر سرین تک پھیرا یا سینے پر خاص طور سے ہاتھ پھیر ا۔ ان پاکیزہ دعاؤ ں کا یہ اثر ہوا کہ حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ ایک بہترین شہسوار بن کر اس مہم پر روانہ ہوئے اور کا میابی سے واپس آئے ۔ آپ نے اس بت خانے کے بارے میں جو فرمایا ا س کی وجہ یہ تھی کہ وہاںکفار ومشرکین اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذارسانی کی تدابیر سوچتے اور کعبہ مقدس کی تنقیص کر تے اور ہر طرح سے اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرتے، لہذاقیام امن کے لیے اس کا ختم کرنا ضروری ہوا ۔ حالت امن میں کسی قوم ومذہب کی عبادت گاہ کو اسلام نے مسمار کرنے کا حکم نہیں دیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں ذمی یہود اور نصاری کے گرجاؤں کو محفوظ رکھا اور ہندو ستان میں مسلمان بادشاہوں نے اس ملک کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی اور ان کے لیے جاگیریں وقف کی ہیں ۔ جیساکہ تاریخ شاہد ہے۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور منہ اور سینے پر زیرناف تک پھیر دیا پھر سر پر ہاتھ رکھا اور پیٹھ پر سرین تک پھیرا یا سینے پر خاص طور سے ہاتھ پھیر ا۔ ان پاکیزہ دعاؤ ں کا یہ اثر ہوا کہ حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ ایک بہترین شہسوار بن کر اس مہم پر روانہ ہوئے اور کا میابی سے واپس آئے ۔ آپ نے اس بت خانے کے بارے میں جو فرمایا ا س کی وجہ یہ تھی کہ وہاںکفار ومشرکین اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذارسانی کی تدابیر سوچتے اور کعبہ مقدس کی تنقیص کر تے اور ہر طرح سے اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرتے، لہذاقیام امن کے لیے اس کا ختم کرنا ضروری ہوا ۔ حالت امن میں کسی قوم ومذہب کی عبادت گاہ کو اسلام نے مسمار کرنے کا حکم نہیں دیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں ذمی یہود اور نصاری کے گرجاؤں کو محفوظ رکھا اور ہندو ستان میں مسلمان بادشاہوں نے اس ملک کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی اور ان کے لیے جاگیریں وقف کی ہیں ۔ جیساکہ تاریخ شاہد ہے۔