كِتَابُ المَغَازِي بَابُ بَعْثِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، وَخَالِدِ بْنِ الوَلِيدِ ؓ إِلَى اليَمَنِ قَبْلَ حَجَّةِ الوَدَاعِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ القَعْقَاعِ بْنِ شُبْرُمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي نُعْمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ، يَقُولُ: بَعَثَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:164] مِنَ اليَمَنِ بِذُهَيْبَةٍ فِي أَدِيمٍ مَقْرُوظٍ، لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا، قَالَ: فَقَسَمَهَا بَيْنَ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ، بَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ، وَأَقْرَعَ بْنِ حابِسٍ، وَزَيْدِ الخَيْلِ، وَالرَّابِعُ: إِمَّا عَلْقَمَةُ وَإِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: كُنَّا نَحْنُ أَحَقَّ بِهَذَا مِنْ هَؤُلاَءِ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَلاَ تَأْمَنُونِي وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَاءِ، يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً»، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ العَيْنَيْنِ، مُشْرِفُ الوَجْنَتَيْنِ، نَاشِزُ الجَبْهَةِ، كَثُّ اللِّحْيَةِ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، مُشَمَّرُ الإِزَارِ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ، قَالَ: «وَيْلَكَ، أَوَلَسْتُ أَحَقَّ أَهْلِ الأَرْضِ أَنْ يَتَّقِيَ اللَّهَ» قَالَ: ثُمَّ وَلَّى الرَّجُلُ، قَالَ خَالِدُ بْنُ الوَلِيدِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ: «لاَ، لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ يُصَلِّي» فَقَالَ خَالِدٌ: وَكَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي لَمْ أُومَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ وَلاَ أَشُقَّ بُطُونَهُمْ» قَالَ: ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ: «إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ رَطْبًا، لاَ يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ»، وَأَظُنُّهُ قَالَ: «لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ»
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: حجۃ الوداع سے پہلے علی بن ابی طالب اور خالد بن ولید ؓ کو یمن بھیجنا
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہاہم سے عبد الواحد بن زیاد نے بیان کیا ، ان سے عمار ہ بن قعقاع بن شبر مہ نے بیان کیا ، ان سے عبد الرحمن بن ابی نعیم نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ یمن سے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیری کے پتوں سے دباغت دئے ہوئے چمڑے کے ایک تھیلے میں سونے کے چند ڈلے بھیجے ۔ ان سے ( کان کی ) مٹی بھی ابھی صاف نہیں کی گئی تھی ۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا ۔ عیینہ بن بدر ، اقرع بن حابس ، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ رضی اللہ عنہم تھے یا عامر بن طفیل رضی اللہ عنہ تھے ۔ آپ کے اصحاب میں سے ایک صاحب نے اس پر کہا کہ ان لو گو ں سے زیا دہ ہم اس سونے کے مستحق تھے ۔ راوی نے بیان کیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوا تو آپ ا نے فرمایا کہ تم مجھ پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ اس اللہ نے مجھ پر اعتبار کیا ہے جو آسمان پر ہے اور اس کی جو آسمان پر ہے وحی میرے پاس صبح و شام آتی ہے ۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں ، دونوں رخسار پھولے ہوئے تھے ، پیشانی بھی ابھری ہوئی تھی ، گھنی داڑھی اور سر منڈا ہوا ، تہبند اٹھائے ہوئے تھا ، کھڑا ہوا اور کہنے لگا یارسول اللہ ! اللہ سے ڈرئےے ۔ آپ انے فرمایا ، افسوس تجھ پر کیا میں اس روئے زمین پر اللہ سے ڈرنے کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں ۔ راوی نے بیان کیا پھر وہ شخص چلا گیا ۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں کیوں نہ اس شخص کی گردن مار دوں ؟ آپ ا نے فرمایا نہیں شاید وہ نما ز پڑھتا ہو اس پر خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ بہت سے نمازپڑھنے والے ایسے ہیں جو زبان سے اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے دل میں وہ نہیں ہوتا ۔ آپ ا نے فرمایا اس کا حکم نہیں ہواہے کہ لوگوں کے دلوں کی کھوج لگاؤں اور نہ اس کا حکم ہواکہ ان کے پیٹ چاک کروں ۔ راوی نے کہا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ( منافق ) کی طرف دیکھا تو وہ پیٹھ پھیر کر جارہا تھا ۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی نسل سے ایک ایسی قوم نکلے گی جو کتاب اللہ کی تلاوت بڑی خوش الحانی کے ساتھ کرے گی لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ۔ دین سے وہ لوگ اس طرح نکل چکے ہوں گے جیسے تیر جانور کے پار نکل جاتا ہے اور میر ا خیال ہے کہ آپ ا نے یہ بھی فرمایا ، اگر میں ان کے دورمیں ہوا تو ثمود کی قوم کی طرح ان کو با لکل قتل کر ڈالوں گا ۔
تشریح :
ایک روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پر ستوں کو چھوڑیں گے ۔ یہ پیش گوئی آپ کی پوری ہوئی ۔ خارجی جن کے یہی اطوار تھے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ظاہر ہوئے ۔ آپ نے ان کو خوب قتل کیا ۔ ہمارے زمانہ میں بھی ان خارجیوں کے پیر وموجود ہیں ۔ سر منڈے داڑھی نیچی ، ازار اونچی ، ظاہر میں بڑے متقی پرہیز گار غریب مسلمانوں خصوصاً اہلحدیث کو لامذہب اور وہابی قرار دے کر ان پر حملے کرتے ہیں اور یہودونصاری اور مشرکوں سے برابر کا میل جول رکھتے ہیں ۔ ان سے کچھ تعارض نہیںکرتے ۔ ہائے افسوس مسلمانوں کو کیا خبط ہوگیا ہے اپنے بھائیوں میں حضرت محمدا کاکلمہ پڑھنے والوں کو تو ایک ایک مسئلہ پر ستائیں اور غیر مسلموں سے دوستی رکھیں ۔ ایسے مسلمان قیا مت کے دن نبی کریم ا کو منہ کیا دکھلائیں گے ۔ حدیث کے آخری لفظوں کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں پر قرآن کا ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوگا ۔ ہمارے زمانے میں یہی حال ہے ۔ قرآن پڑھنے کو تو سینکڑوں آدمی پڑھتے ہیں لیکن اس کے معنی اور مطلب میں غور کرنے والے بہت تھوڑے ہیں اور بعض شیا طین کا تو یہ حا ل ہے کہ وہ قرآن وحدیث کا ترجمہ پڑھنے پڑھانے ہی سے منع کر تے ہیں ۔ اُولئِکَ الَّذِینَ لَعَنَہُمُ اللّہُ فَاصَمَّہُم وَاعمی ابصَاَرَہُم ( محمد: 23 )
ایک روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پر ستوں کو چھوڑیں گے ۔ یہ پیش گوئی آپ کی پوری ہوئی ۔ خارجی جن کے یہی اطوار تھے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ظاہر ہوئے ۔ آپ نے ان کو خوب قتل کیا ۔ ہمارے زمانہ میں بھی ان خارجیوں کے پیر وموجود ہیں ۔ سر منڈے داڑھی نیچی ، ازار اونچی ، ظاہر میں بڑے متقی پرہیز گار غریب مسلمانوں خصوصاً اہلحدیث کو لامذہب اور وہابی قرار دے کر ان پر حملے کرتے ہیں اور یہودونصاری اور مشرکوں سے برابر کا میل جول رکھتے ہیں ۔ ان سے کچھ تعارض نہیںکرتے ۔ ہائے افسوس مسلمانوں کو کیا خبط ہوگیا ہے اپنے بھائیوں میں حضرت محمدا کاکلمہ پڑھنے والوں کو تو ایک ایک مسئلہ پر ستائیں اور غیر مسلموں سے دوستی رکھیں ۔ ایسے مسلمان قیا مت کے دن نبی کریم ا کو منہ کیا دکھلائیں گے ۔ حدیث کے آخری لفظوں کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں پر قرآن کا ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوگا ۔ ہمارے زمانے میں یہی حال ہے ۔ قرآن پڑھنے کو تو سینکڑوں آدمی پڑھتے ہیں لیکن اس کے معنی اور مطلب میں غور کرنے والے بہت تھوڑے ہیں اور بعض شیا طین کا تو یہ حا ل ہے کہ وہ قرآن وحدیث کا ترجمہ پڑھنے پڑھانے ہی سے منع کر تے ہیں ۔ اُولئِکَ الَّذِینَ لَعَنَہُمُ اللّہُ فَاصَمَّہُم وَاعمی ابصَاَرَہُم ( محمد: 23 )