‌صحيح البخاري - حدیث 4345

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ بَعْثِ أَبِي مُوسَى، وَمُعَاذٍ إِلَى اليَمَنِ قَبْلَ حَجَّةِ الوَدَاعِ صحيح حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَدَّهُ أَبَا مُوسَى وَمُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ يَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا وَتَطَاوَعَا فَقَالَ أَبُو مُوسَى يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّ أَرْضَنَا بِهَا شَرَابٌ مِنْ الشَّعِيرِ الْمِزْرُ وَشَرَابٌ مِنْ الْعَسَلِ الْبِتْعُ فَقَالَ كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ فَانْطَلَقَا فَقَالَ مُعَاذٌ لِأَبِي مُوسَى كَيْفَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ قَالَ قَائِمًا وَقَاعِدًا وَعَلَى رَاحِلَتِي وَأَتَفَوَّقُهُ تَفَوُّقًا قَالَ أَمَّا أَنَا فَأَنَامُ وَأَقُومُ فَأَحْتَسِبُ نَوْمَتِي كَمَا أَحْتَسِبُ قَوْمَتِي وَضَرَبَ فُسْطَاطًا فَجَعَلَا يَتَزَاوَرَانِ فَزَارَ مُعَاذٌ أَبَا مُوسَى فَإِذَا رَجُلٌ مُوثَقٌ فَقَالَ مَا هَذَا فَقَالَ أَبُو مُوسَى يَهُودِيٌّ أَسْلَمَ ثُمَّ ارْتَدَّ فَقَالَ مُعَاذٌ لَأَضْرِبَنَّ عُنُقَهُ تَابَعَهُ الْعَقَدِيُّ وَوَهْبٌ عَنْ شُعْبَةَ وَقَالَ وَكِيعٌ وَالْنَّضْرُ وَأَبُو دَاوُدَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَوَاهُ جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ الشَّيْبَانِيِّ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4345

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: حجۃ الوداع سے پہلے آنحضرت ﷺ کا ابو موسیٰ اشعری اور حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن بھیجنا ہم سے مسلم نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سعید بن ابی بردہ نے اور ان کے والد نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دادا حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا حاکم بناکر بھیجا اور فرمایا کہ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا ، ان کو دشواریوں میں نہ ڈالنا ۔ لوگوں کو خوش خبریاں دینا دین سے نفرت نہ دلانااور تم دونوں آپس میں موافقت رکھنا ۔ اس پر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! ہمارے ملک میں جو سے ایک شراب تیار ہوتی ہے جس کا نام ” مزر “ ہے اور شہد سے ایک شراب تیار ہوتی ہے جو ” بتع “ کہلاتی ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے ۔ پھر دونوں بزرگ روانہ ہوئے ۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا آپ قرآن کس طرح پڑھتے ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ کھڑے ہوکر بھی ، بیٹھ کر بھی اور اپنی سواری پر بھی اور میں تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد پڑھتا ہی رہتا ہوں ۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا لیکن میر ا معمول یہ ہے کہ شروع رات میں ، میں سوجاتا ہوں اور پھر بیدار ہوجا تا ہوں ۔ اس طرح میں اپنی نیند پر بھی ثواب کا امید وار ہوں جس طرح بیدار ہوکر ( عبادت کرنے پر ) ثواب کی مجھے امید ہے اور انہوں نے ایک خیمہ لگالیا اور ایک دوسرے سے ملاقات برابر ہوتی رہتی ۔ ایک مر تبہ معاذ رضی اللہ عنہ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے ملنے کے لیے آئے ، دیکھا ایک شخص بندھا ہوا ہے ۔ پوچھا یہ کیا بات ہے ؟ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ یہ ایک یہودی ہے ، پہلے خود اسلام لایا اب یہ مرتد ہو گیا ہے ۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اسے قتل کئے بغیر ہر گز نہ رہوںگا ۔ مسلم بن ابراہیم کے ساتھ اس حدیث کو عبد الملک بن عمرو عقدی اور وہب بن جریر نے شعبہ سے روایت کیا ہے اورو کیع اور نضراور ابو داؤد نے اس کو شعبہ سے ، انہوں نے سعید سے ، انہوں اپنے باپ بردہ سے ، انہوں نے سعید کے دادا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے ، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا اور جریر بن عبد الحمیدنے اس کو شیبانی سے روایت کیا ، انہوں نے ابوبردہ سے ۔
تشریح : عقدی کی روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے احکام میںاوروہب کی روایت کو اسحاق بن راہویہ نے وصل کیا ہے ۔ وکیع کی روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جہاد میں اور ابو داؤد طیالسی کی روایت کوامام نسائی نے اور نضر کی روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ادب میں وصل کیا ہے۔ مطلب امام بخاری کا یہ ہے کہ وکیع اور نضر اور ابو داودنے شعبہ سے اس حدیث کو موصولاً روایت کیا اور مسلم بن ابراہیم اور عقدی اور جریر نے مرسلاًروایت کیا ۔ اس میں مبلغین کے لیے خاص ہدایات ہیں کہ لوگوں کو نفرت نہ دلائیں ، دشوار باتیں ان کے سامنے نہ رکھےں، آپس میں مل جل کر کام کریں ۔ اللہ یہی توفیق بخشے ۔ آمین یا رب العالمین مگر آج کل ایسے مبلغین بہت کم ہیں ۔ الاماشاءاللہ۔ عقدی کی روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے احکام میںاوروہب کی روایت کو اسحاق بن راہویہ نے وصل کیا ہے ۔ وکیع کی روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جہاد میں اور ابو داؤد طیالسی کی روایت کوامام نسائی نے اور نضر کی روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ادب میں وصل کیا ہے۔ مطلب امام بخاری کا یہ ہے کہ وکیع اور نضر اور ابو داودنے شعبہ سے اس حدیث کو موصولاً روایت کیا اور مسلم بن ابراہیم اور عقدی اور جریر نے مرسلاًروایت کیا ۔ اس میں مبلغین کے لیے خاص ہدایات ہیں کہ لوگوں کو نفرت نہ دلائیں ، دشوار باتیں ان کے سامنے نہ رکھےں، آپس میں مل جل کر کام کریں ۔ اللہ یہی توفیق بخشے ۔ آمین یا رب العالمین مگر آج کل ایسے مبلغین بہت کم ہیں ۔ الاماشاءاللہ۔