كِتَابُ المَغَازِي بَابُ بَعْثِ النَّبِيِّ ﷺخَالِدَ بْنَ الوَلِيدِ إِلَى بَنِي جَذِيمَةَ صحيح حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ح و حَدَّثَنِي نُعَيْمٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ إِلَى بَنِي جَذِيمَةَ فَدَعَاهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ فَلَمْ يُحْسِنُوا أَنْ يَقُولُوا أَسْلَمْنَا فَجَعَلُوا يَقُولُونَ صَبَأْنَا صَبَأْنَا فَجَعَلَ خَالِدٌ يَقْتُلُ مِنْهُمْ وَيَأْسِرُ وَدَفَعَ إِلَى كُلِّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِيرَهُ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمٌ أَمَرَ خَالِدٌ أَنْ يَقْتُلَ كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِيرَهُ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَا أَقْتُلُ أَسِيرِي وَلَا يَقْتُلُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِي أَسِيرَهُ حَتَّى قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْنَاهُ فَرَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ مَرَّتَيْنِ
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: نبی کریم ﷺکا خالد بن ولید ؓ کو بنی جذیمہ قبیلے کی طرف بھیجنا
مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا ، انہیں معمر نے خبر دی ۔ ( دوسری سند ) اور مجھ سے نعیم بن حماد نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی ، انہیں معمر نے ، انہیں زہری نے ، انہیں سالم نے اور ان سے ان کے والد عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بنی جذیمہ کی طرف بھیجا ۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے انہیں اسلام کی دعوت دی لیکن انہیں ” اسلمنا “ ( ہم اسلام لائے ) کہنا نہیں آتا تھا ، اس کے بجائے وہ ” صبانا ، صبانا “ ( ہم بے دین ہوگئے ، یعنی اپنے آبائی دین سے ہٹ گئے ) کہنے لگے ۔ خالد رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کر نا اور قید کر نا شروع کر دیا اور پھر ہم میں سے ہر شخص کو اس کا قیدی اس کی حفاظت کے لیے دے دیا پھرجب ایک دن خالد رضی اللہ عنہ نے ہم سب کو حکم دیا کہ ہم اپنے قیدیوں کو قتل کر دیں ۔ میں نے کہا اللہ کی قسم میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گااور نہ میرے ساتھیوں میں کوئی اپنے قیدی کو قتل کرے گاآخر جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آ پ سے صورت حال بیان کیا تو آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعاکی ۔ اے اللہ ! میں اس فعل سے بیزار ی کا اعلان کرتاہوں ، جو خالد نے کیا ۔ دومرتبہ آپ نے یہی فرمایا ۔
تشریح :
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فوج کے سردار تھے مگر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس حکم میں ان کی اطاعت نہیں کی کیونکہ ان کا یہ حکم شرع کے خلاف تھا ۔ جب بنی جذیمہ کے لوگوں نے لفظ صبانا سے مسلمان ہونا مراد لیا تو حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو ان کے قتل کر نے سے رک جانا ضروری تھا اور یہی وجہ ہے کہ آنحضرت انے خالد رضی اللہ عنہ کے فعل سے اپنی براءت ظاہر فرمائی ۔ ان کی خطا اجتہاد ی تھی ۔ وہ صبانا کا معنی اسلمنا نہ سمجھے اور انہوں نے ظاہر حکم پر عمل کیا کہ جب تک وہ اسلام نہ لائیں ، ان سے لڑو۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ ولید قریشی کے بیٹے ہیں جو مخزومی ہیں ۔ ان کی والدہ لبابۃ الصغری نامی ام المو منین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہیں ۔ یہ اشراف قریش سے تھے ۔ آنحضرت انے ان کو سیف اللہ کا خطاب دیا تھا ۔ سنہ 21ھ میں وفات پائی ، رضی اللہ عنہ ۔
--------------------------------------------------------------------------------------------------وا ان
قولوا اسلمنا قال فضعوا السلاح فوضعوہ فقال لھم استاسروا فاستاسروا القوم فامر بعضھم فکتف بعضا وفرقھم فی اصحابہ فلما کان فی السحر نادی خالد بن الولید کان معھم اسیر فلیضرب عنقہ فاما بنو سلیم فقتلوا من کان فی ایدیھم واما المھاجرون والانصار فارسلوا اسراھم فبلغ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما صنع خالد فقال اللہم انی ابرا الیک مما صنع خالد وبعث علیا یودی لھم قتلاھم وما ذھب منھم ( زاد المعاد ) یعنی جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ عزی کو ختم کر کے لوٹے اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ ہی میں موجود تھے ۔ آپ نے ان کو بنی جذیمہ کی طرف تبلیغ کی غرض سے بھیجا اور لڑائی کے لیے نہیں بھیجا تھا ۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ ساڑھے تین سو مہاجر اور انصار صحا بیوں کے ساتھ نکلے ۔ کچھ بنو سلیم کے لوگ بھی ان کے ساتھ تھے ۔ جب وہ بنو جذیمہ کے یہا ں پہنچے تو انہوں نے ان سے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو؟ وہ بولے ہم مسلمان ہیں ، نمازی ہیں ، ہم نے حضرت محمد ا کاکلمہ پڑھا ہوا ہے اور ہم نے اپنے والانوں میں مساجد بھی بنا رکھی ہیں اور ہم وہاںاذان بھی دیتے ہیں ، وہ سب ہتھیار بند تھے ۔ حضرت خالد نے پوچھا کہ تمہارے جسموں پر یہ ہتھیار کیوں ہیں ؟ وہ بولے کہ ایک عرب قوم کے اور ہما رے درمیان عداوت چل رہی ہے ۔ ہما را گمان ہوا کہ شاید تم وہی لوگ ہو ۔ یہ بھی منقول ہے کہ ان لوگوں نے بجائے اسلمنا کے صبانا صبانا کہا کہ ہم اپنے پرانے دین سے ہٹ گئے ہیں ۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ ہتھیا ر اتاردو۔ انہوں نے ہتھیار اتار دئے اور خالد رضی اللہ عنہ نے ان کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ پس حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے ان سب کو قید کر لیا اور ان کے ہاتھ باندھ دئے۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے ساتھیوں میںحفاظت کے لیے تقسیم کر دیا ۔ صبح کے وقت انہوں نے پکا ر اکہ جن کے پاس جس قدر بھی قیدی ہوں وہ ان کو قتل کر دیں ۔ بنوسلیم نے تو اپنے قیدی قتل کردئے مگر انصار اور مہاجرین نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے اس حکم کونہیں مانا اور ان قیدیوں کو آزاد کر دیا ۔ جب اس واقعہ کی خبر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے اس فعل سے اظہاربیزاری فرمایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وہا ں بھیجا تاکہ جو لوگ قتل ہوے ہیں ان کا فدیہ اداکیا جائے اور ان کے نقصان کی تلافی کی جائے۔
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فوج کے سردار تھے مگر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس حکم میں ان کی اطاعت نہیں کی کیونکہ ان کا یہ حکم شرع کے خلاف تھا ۔ جب بنی جذیمہ کے لوگوں نے لفظ صبانا سے مسلمان ہونا مراد لیا تو حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو ان کے قتل کر نے سے رک جانا ضروری تھا اور یہی وجہ ہے کہ آنحضرت انے خالد رضی اللہ عنہ کے فعل سے اپنی براءت ظاہر فرمائی ۔ ان کی خطا اجتہاد ی تھی ۔ وہ صبانا کا معنی اسلمنا نہ سمجھے اور انہوں نے ظاہر حکم پر عمل کیا کہ جب تک وہ اسلام نہ لائیں ، ان سے لڑو۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ ولید قریشی کے بیٹے ہیں جو مخزومی ہیں ۔ ان کی والدہ لبابۃ الصغری نامی ام المو منین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہیں ۔ یہ اشراف قریش سے تھے ۔ آنحضرت انے ان کو سیف اللہ کا خطاب دیا تھا ۔ سنہ 21ھ میں وفات پائی ، رضی اللہ عنہ ۔
--------------------------------------------------------------------------------------------------وا ان
قولوا اسلمنا قال فضعوا السلاح فوضعوہ فقال لھم استاسروا فاستاسروا القوم فامر بعضھم فکتف بعضا وفرقھم فی اصحابہ فلما کان فی السحر نادی خالد بن الولید کان معھم اسیر فلیضرب عنقہ فاما بنو سلیم فقتلوا من کان فی ایدیھم واما المھاجرون والانصار فارسلوا اسراھم فبلغ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما صنع خالد فقال اللہم انی ابرا الیک مما صنع خالد وبعث علیا یودی لھم قتلاھم وما ذھب منھم ( زاد المعاد ) یعنی جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ عزی کو ختم کر کے لوٹے اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ ہی میں موجود تھے ۔ آپ نے ان کو بنی جذیمہ کی طرف تبلیغ کی غرض سے بھیجا اور لڑائی کے لیے نہیں بھیجا تھا ۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ ساڑھے تین سو مہاجر اور انصار صحا بیوں کے ساتھ نکلے ۔ کچھ بنو سلیم کے لوگ بھی ان کے ساتھ تھے ۔ جب وہ بنو جذیمہ کے یہا ں پہنچے تو انہوں نے ان سے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو؟ وہ بولے ہم مسلمان ہیں ، نمازی ہیں ، ہم نے حضرت محمد ا کاکلمہ پڑھا ہوا ہے اور ہم نے اپنے والانوں میں مساجد بھی بنا رکھی ہیں اور ہم وہاںاذان بھی دیتے ہیں ، وہ سب ہتھیار بند تھے ۔ حضرت خالد نے پوچھا کہ تمہارے جسموں پر یہ ہتھیار کیوں ہیں ؟ وہ بولے کہ ایک عرب قوم کے اور ہما رے درمیان عداوت چل رہی ہے ۔ ہما را گمان ہوا کہ شاید تم وہی لوگ ہو ۔ یہ بھی منقول ہے کہ ان لوگوں نے بجائے اسلمنا کے صبانا صبانا کہا کہ ہم اپنے پرانے دین سے ہٹ گئے ہیں ۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ ہتھیا ر اتاردو۔ انہوں نے ہتھیار اتار دئے اور خالد رضی اللہ عنہ نے ان کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ پس حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے ان سب کو قید کر لیا اور ان کے ہاتھ باندھ دئے۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے ساتھیوں میںحفاظت کے لیے تقسیم کر دیا ۔ صبح کے وقت انہوں نے پکا ر اکہ جن کے پاس جس قدر بھی قیدی ہوں وہ ان کو قتل کر دیں ۔ بنوسلیم نے تو اپنے قیدی قتل کردئے مگر انصار اور مہاجرین نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے اس حکم کونہیں مانا اور ان قیدیوں کو آزاد کر دیا ۔ جب اس واقعہ کی خبر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے اس فعل سے اظہاربیزاری فرمایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وہا ں بھیجا تاکہ جو لوگ قتل ہوے ہیں ان کا فدیہ اداکیا جائے اور ان کے نقصان کی تلافی کی جائے۔