‌صحيح البخاري - حدیث 4337

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ، قَالَهُ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمَ حُنَيْنٍ أَقْبَلَتْ هَوَازِنُ وَغَطَفَانُ وَغَيْرُهُمْ بِنَعَمِهِمْ وَذَرَارِيِّهِمْ وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةُ آلَافٍ وَمِنْ الطُّلَقَاءِ فَأَدْبَرُوا عَنْهُ حَتَّى بَقِيَ وَحْدَهُ فَنَادَى يَوْمَئِذٍ نِدَاءَيْنِ لَمْ يَخْلِطْ بَيْنَهُمَا الْتَفَتَ عَنْ يَمِينِهِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ قَالُوا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ ثُمَّ الْتَفَتَ عَنْ يَسَارِهِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ قَالُوا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ وَهُوَ عَلَى بَغْلَةٍ بَيْضَاءَ فَنَزَلَ فَقَالَ أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَانْهَزَمَ الْمُشْرِكُونَ فَأَصَابَ يَوْمَئِذٍ غَنَائِمَ كَثِيرَةً فَقَسَمَ فِي الْمُهَاجِرِينَ وَالطُّلَقَاءِ وَلَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ شَيْئًا فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ إِذَا كَانَتْ شَدِيدَةٌ فَنَحْنُ نُدْعَى وَيُعْطَى الْغَنِيمَةَ غَيْرُنَا فَبَلَغَهُ ذَلِكَ فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ فَسَكَتُوا فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَلَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا وَتَذْهَبُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ تَحُوزُونَهُ إِلَى بُيُوتِكُمْ قَالُوا بَلَى فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَسَلَكَتْ الْأَنْصَارُ شِعْبًا لَأَخَذْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ وَقَالَ هِشَامٌ قُلْتُ يَا أَبَا حَمْزَةَ وَأَنْتَ شَاهِدٌ ذَاكَ قَالَ وَأَيْنَ أَغِيبُ عَنْهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4337

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: غزوئہ طائف کا بیان جوشوال سنہ 8ھ میں ہوا ۔ یہ موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیاہے ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے معاذ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبد اللہ بن عون نے ، ان سے ہشام بن زید بن انس بن مالک نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب حنین کا دن ہوا تو قبیلہ ہوا زن اور غطفان اپنے مویشی اور بال بچوں کو ساتھ لے کر جنگ کے لیے نکلے ۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار کا لشکر تھا ۔ ان میں کچھ لوگ وہ بھی تھے ، جنہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد احسان رکھ کر چھوڑ دیا تھا ، پھر ان سب نے پیٹھ پھیر لی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تنہا رہ گئے ۔ اس دن حضور انے دومرتبہ پکا را دونوں پکا ر ایک دوسرے سے الگ الگ تھیں ، آپ نے دائیں طرف متوجہ ہوکر پکار ا ، اے انصار یو ! انہوں نے جواب دیا ہم حاضر ہیں یا رسو ل اللہ ! آپ کو بشارت ہو ، ہم آپ کے ساتھ ہیں ، لڑنے کو تیا ر ہیں ۔ پھر آپ بائیں طرف متوجہ ہوئے اور آواز دی اے انصار یو ! انہوں نے ادھر سے جواب دیا کہ ہم حاضر ہیں یا رسو ل اللہ ! بشارت ہو ، ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ حضور ااس وقت ایک سفید خچر پر سوار تھے پھر آپ اتر گئے اور فرمایا میں اللہ کا بندہ اوراس کا رسو ل ہوں ۔ انجام کار کافروں کو ہار ہوئی اور اس لڑائی میں بہت زیادہ غنیمت حاصل ہوئی ۔ حضور انے اسے مہاجرین میں اور قریشیوں میں تقسیم کر دیا ( جنہیں فتح مکہ کے موقع پر احسان رکھ کر چھوڑدیا تھا ) انصار کو ان میں سے کچھ نہیں عطا فرمایا ۔ انصار ( کے بعض نوجوانوں ) نے کہا کہ جب سخت وقت آتا ہے تو ہمیں بلایا جاتا ہے اور غنیمت دوسروں کو تقسیم کر دی جاتی ہے ۔ یہ بات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے انصار کو ایک خیمہ میں جمع کیا اور فرمایا اے انصار یو ! کیا وہ بات صحیح ہے جو تمہا رے بارے میں مجھے معلوم ہوئی ہے ؟ اس پر وہ خاموش ہوگئے پھر آ نحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انصاریو ! کیا تم اس پر خوش نہیں ہوکہ لوگ دنیا اپنے ساتھ لے جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے گھر لے جاؤ ۔ انصاریو نے عرض کیاہم اسی پر خوش ہیں ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کسی گھاٹی میں چلیں تو میں انصار ہی کی گھاٹی میں چلنا پسند کروں گا ۔ اس پر ہشام نے پوچھا اے ابو حمزہ ! کیا آ پ وہاں موجود تھے ؟ انہوں نے کہا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے غائب ہی کب ہوتا تھا ۔
تشریح : مسلم کی رویت میں ہے کہ آپ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا شجرہ رضوان والوں کو آواز دو ۔ ان کی آ واز بلند تھی ۔ انہوں نے پکارا اے شجرہ رضوان والو! تم کہاں چلے گئے ہو ، ان کی پکار سنتے ہی یہ لوگ ایسے لپکے جیسے گائیں شفقت سے اپنے بچوں کی طرف دوڑتی ہیں ۔ سب کہنے لگے ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں۔ مسلم کی رویت میں ہے کہ آپ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا شجرہ رضوان والوں کو آواز دو ۔ ان کی آ واز بلند تھی ۔ انہوں نے پکارا اے شجرہ رضوان والو! تم کہاں چلے گئے ہو ، ان کی پکار سنتے ہی یہ لوگ ایسے لپکے جیسے گائیں شفقت سے اپنے بچوں کی طرف دوڑتی ہیں ۔ سب کہنے لگے ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں۔